نئی دہلی، 14 اگست:
صدر جمہوریہ ہند محترمہ دروپدی مرمونے 76ویں یوم آزادی کی ماقبل شام ملک اور بیرون ملک میں رہنے والے سبھی ہندوستانیوں کو میں دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ ایک آزاد ملک کے طور پر ہندوستان 75سال مکمل کر رہا ہے۔ اس مبارک دن کی سالگرہ مناتے ہوئے ہم لوگ جنگ آزادی میں حصہ لینے والے تمام مجاہدین کو سلام پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سب سے بڑی قربانی دی ،تاکہ ہم سب ایک آزاد ہندوستان کی فضا میں سانس لے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ 14اگست کےدن کو تقسیم کے سانحہ کی یاد کے دن کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد سماجی ہم آہنگی ، افراد کو بااختیار بنانا اور اتحاد کو فروغ دینا ہے۔ 15 اگست 1947کے دن ہم نے نو آبادیاتی حکومت کی بیڑیوں کو کاٹ دیا تھا۔ اس دن ہم نے اپنی آزادی کو نئی شکل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ہندوستان کی آزادی ہمارے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں جمہوریت کے ہر حامی کے لئے ایک خوشی کا موقع ہے۔ جب ہندوستان آزاد ہوا تو کئی بین الاقوامی رہنماؤں اور مفکرین نے ہمارے جمہوری حکومتی نظام کی کامیابی کے سلسلے میں اندیشوں کا اظہار کیا تھا۔ اُن کے اِن اندیشوں کے کئی اسباب بھی تھے۔ اُن دنوں جمہوریت معاشی طور پر خوشحال ملکوں تک ہی محدود تھی۔ غیر ملکی حکمرانوں نے برسوں تک ہندوستان کا استحصال کیاتھا۔ اسی وجہ سے ہندوستان کے لوگ غریبی اور ناخواندگی سے نبرد آزما تھےلیکن ہندوستان کے باشندوں نے اُن لوگوں کے اندیشوں کو غلط ثابت کر دیا اور ہندوستان کی مٹّی میں جمہوریت کی جڑیں مسلسل گہری اور مضبوط ہوتی گئیں۔انہوں نے کہا کہ بیشتر جمہوری ممالک میں ووٹ دینے کا اختیار حاصل کرنے کے لئے خواتین کو طویل عرصے تک جدو جہد کرنی پڑی لیکن ہماری جمہوریت کی شروعات سے ہی ہندوستان نے ہر بالغ کو ووٹ کا حق دینے کے اصول کو اپنایا۔ اس طرح جدید ہندوستان کے معماروں نے ہر بالغ شہری کو قومی تعمیر کے اجتماعی عمل میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا۔ یہ سہرا ہندوستان کے سر ہے کہ اُس نے عالمی برادری کو جمہوریت کی حقیقی طاقت سے واقف کرایا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں مانتی ہوں کہ ہندوستان کی یہ کامیابی محض ایک اتفاق نہیں تھا۔ تہذیب کی شروعات سے ہی ہندوستان کے سنتوں اور عظیم شخصیتوں نے ہر فرد کی برابری اور اتحاد پر مبنی زندگی کا نظریہ قائم کرلیا تھا۔ مہاتما گاندھی جیسی عظیم شخصیتوں کی قیادت میں ہوئی جنگ آزادی کے دوران ہماری قدیم اقدارِ زندگی کو اس جدید زمانے میں پھر سے قائم کیا گیا۔ اِسی وجہ سے ہماری جمہوریت میں ہندوستانیت کے عناصر نظر آتے ہیں۔ گاندھی جی حکومت کی لامرکزیت اور عام عوام کو مکمل اختیارات دینے کے حامی تھے۔گذشتہ 75 برسوں سے ہمارے ملک میں جنگ آزادی کی عظیم قدروں کو یاد کیا جا رہا ہے۔ ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ مارچ 2021میں دانڈی یاترا کی یاد کو پھر سے جیتی جاگتی شکل دے کر شروع کیا گیا تھا۔ اِس عہد ساز تحریک نے ہماری جدوجہد کو عالمی سطح پر مقام دلایا۔ اس کا احترام کرتے ہوئے ہمارے اِس مہوتسو کی شروعات کی گئی ۔ یہ مہوتسو ہندوستان کے عوام کے نام وقف ہے۔ ملک کے عوام کے ذریعے حاصل کی گئی کامیابی کی بنیاد پر ’خودکفیل بھارت‘ کی تعمیر کا عزم بھی اِس اتسو کا حصہ ہے۔ ہر عمر کے شہری پورے ملک میں منعقد ہورہے اِس مہوتسو کے پروگراموں میں جوش و خروش کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔ یہ شاندار مہوتسو اب ’ہر گھر ترنگا مہم‘ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ آج ملک کے کونے کونے میں ہمارا ترنگا شان سے لہرا رہا ہے۔ جنگ آزادی کی قدروں کے تئیں اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں میں بیداری دیکھ کر ہمارے مجاہدین آزادی اگر آج ہوتے تو ضرور خوش ہوتے ۔
ہماری قابل فخر جنگ آزادی اس عظیم ملک ہندوستان میں نہایت پُر وقار انداز میں شجاعت کے ساتھ جاری رہی۔ بہت سے عظیم مجاہدین آزاد ی نے بہادری کی مثالیں پیش کیں اور قومی بیداری کی مشعل اگلی نسل کو سونپی۔بہت سے بہادروں اور ان کی جدوجہد خصوصاً کسانوں اور قبائلی معاشرے کے بہادروں کے تعاون کو ایک طویل عرصے تک اجتماعی طور پر یاد نہیں کیا جا سکا۔ گذشتہ سا ل سے ہر 15 نومبر کو قبائلی افراد کے لئے یوم فخر کے طور پر منانے کا حکومت کا فیصلہ خیرمقدم کئے جانے کے لائق ہے۔ ہماری عظیم قبائلی شخصیتیں صرف مقامی یا علاقائی علامتیں ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے باعث ترغیب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک قوم کے لئے، خاص طور سے ہندوستان جیسے قدیم ملک کی طویل تاریخ میں 75سال کا بڑا عرصہ بہت چھوٹا نظر آتا ہے۔ لیکن انفرادی سطح پر یہ عرصہ ایک مکمل زندگی کے عرصے کے برابر ہے۔ ہمارے بزرگ شہریوں نے اپنی زندگی میں انوکھی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ یہ افراد گواہ ہیں کہ کس طرح آزادی کے بعد سبھی نسلوں نے سخت محنت کی،بڑے چیلنجوں کا سامنا کیا اور خود اپنی قسمت لکھی۔ اِس دور میں ہم نے جو کچھ سیکھا ہے، وہ سب کارآمد ثابت ہوگا، کیونکہ ہم اپنے ملک کے سفر میں ایک تاریخی موڑ کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم سب 2047 میں آزادی کی صدی تقریبات کے لئے25 سال کےوقفے یعنی بھارت کے سنہری دور میں داخل ہو رہے ہیں۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہمارا عزم ہے کہ سال 2047 تک ہم اپنے مجاہدین آزادی کے خوابوں کو پوری طرح شرمندۂ تعبیر کرلیں گے۔ اِس عرصے میں ہم بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی قیادت میں آئین کو تیار کرنے والی شخصیتوں کے ویژن کو مکمل کر چکے ہوں گے۔ ایک خودکفیل بھارت کی تعمیر میں ہم پہلے سے ہی مصروف عمل ہیں ۔ وہ ایک ایسا بھارت ہوگا جو اپنے امکانات کو عملی شکل دے چکا ہوگا۔دنیا نے حالیہ برسوں میں ایک نئے ہندوستان کو ابھرتے ہوئے دیکھا ہے ، خاص کر کووڈ-19 کے دوران اِس وبا کا سامنا ہم نے جس طرح کیا ہے، اُس کی ہر جگہ ستائش کی گئی ہے۔ ہم نے ملک میں ہی تیار کردہ ویکسین سے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم شروع کی۔ گزشتہ مہینے ہم نے 200 کروڑ افراد کو ٹیکے لگانے کا کام مکمل کرلیا ہے۔ اِس وبا کا سامنا کرنے میں ہماری کامیابیاں دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ رہی ہیں۔ اس قابل ستائش کامیابی کے لئے ہم اپنے سائنسدانوں ، ڈاکٹروں ، نرسوں ، نیم طبی عملہ اور ٹیکہ کاری سے منسلک ملازمین کے شکر گذار ہیں۔ اِس آفت میں کورونا جانبازوں کا تعاون خصوصی طور پر قابل ستائش رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی سے ملک کے شہریوں کی زندگی اور بھی آسان ہوتی جا رہی ہے۔ معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے لئے نئے اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں۔ ’پردھان منتری آواس یوجنا‘ کی مدد سے غریب کے پاس اپنا گھر ہونا ، اب ایک خواب نہیں رہ گیا ہے، بلکہ یہ حقیقت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسی طرح ’جل جیون مشن‘ کے تحت ’ہر گھر جل‘ کے منصوبے پر بھی کام چل رہا ہے۔ان اقدامات کا اور اسی طرح کی دیگر کوششوں کا مقصد خاص طور پر غریبوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ ہندوستان میں آج حساسیت اور ہمدردی کی قدروں کو اہمیت دی جارہی ہے۔ زندگی کی اِن قدروں کا اصل مقصد ہمارے محروم طبقوں ، ضرورت مندوں اور سماج میں حاشیے پر رہنے والوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ہے۔ ہمارے قومی اقدار کو شہریوں کے بنیادی فرائض کے طور پر آئین میں جگہ دی گئی ہے۔ ملک کے ہر ایک شہری سے یہ میری درخواست ہے کہ وہ اپنے بنیادی فرائض سے واقف ہو اور اُن پر عمل کرے تاکہ ہمارا ملک نئی بلندیوں کو چھو سکے۔آج ملک میں صحت ، تعلیم اور معیشت اور اِس سے منسلک دیگر شعبوں میں جومثبت تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں، اُن میں اچھی حکمرانی پر خصوصی زور دیئے جانے کا اہم کردار رہا ہے۔ جب ’ملک سب سے اوپر‘،کے جذبے سے کام کیا جاتا ہے، تو اُس کا اثر ہر فیصلے اور کام میں نظر آتا ہے۔ یہ تبدیلی عالمی برادری میں ،بھارت کے بڑھتے ہوئے وقار میں بھی صاف نظر آ رہی ہے۔
بھارت میں پیدا ہونے والی نئی خود اعتمادی کے ذرائع، ملک کے نوجوان ، کسان اور سب سے بڑھ کر ملک کی خواتین ہیں ۔ اب ملک میں مرد اور عورت کے درمیان عدم مساوات کم ہو تی جا رہی ہے۔ خواتین بہت سی دقیانوسی رسموں اور مشکلات سے نمٹتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ سماجی اور سیاسی عمل میں اُن کی بڑھتی ہوئی حصہ داری فیصلہ کن ثابت ہوگی۔ آج ہمارے پنچایتی راج اداروں میں منتخب خواتین نمائندوں کی تعداد 14 لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔
ہمارے ملک کی بہت سی امیدیں ہماری بیٹیوں پر ٹکی ہو ئی ہیں ۔اُنہیں خاطر خواہ مواقع ملنے پر وہ شاندار کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔ ملک کی بہت سی بیٹیوں نے حال ہی میں ختم ہوئے دولت مشترکہ کھیلوں میں ملک کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ ہمارے کھلاڑی دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں بھی ملک کی شان بڑھا رہے ہیں۔ ہمارے کئی فاتح کھلاڑی معاشرے کے محروم طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری بیٹیاں فائٹر پائلٹ سے خلائی سائنسداں تک تمام شعبوں میں اپنا پرچم لہرا رہی ہیں۔
جب ہم یوم آزادی مناتے ہیں تو حقیقت میں ہم ’ہندوستانیت‘ کا تہوار منا رہے ہوتے ہیں ۔ ہمارا بھارت تنوع سے پُر ملک ہے۔ لیکن اِس تنوع کے ساتھ ہی ہم سب میں کچھ نہ کچھ یکسانیت ہے ۔ یہی یکسانیت ملک کے تمام شہریوں کو ایک دھاگے میں پروتی ہے اور ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہے۔
ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ہمارے مادر وطن کا دیا ہوا ہے، اس لئے ہمیں اپنے ملک کی حفاظت، ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا سب کچھ وقف کر دینے کا عزم کرناچاہئے۔ ہمارے وجود کی معنویت ایک عظیم ہندوستان کی تعمیر میں ہی نظر آئے گی۔