جموں،23 اگست :
سابق وزیر داخلہ اور جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ آنجہانی مفتی محمد سعید کی چھوٹی بیٹی اور محبوبہ مفتی کی بہن روبیہ سعید کے خلاف جموں کی ٹاڈا عدالت نے قابل ضمانت وارنٹ جاری کیا ہے۔ روبیہ سید کو 8 دسمبر 1989 کو اپنے اغوا کے مقدمے میں منگل کو پیش ہونا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے عدالت نے ان کے خلاف یہ وارنٹ جاری کیا ہے۔ گذشتہ ماہ اس کیس کی سماعت کے دوران روبیہ سعید پہلی بار عدالت میں پیش ہوئی تھیں اور انہوں نے کشمیری علیحدگی پسند رہنما اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک سمیت چار ملزمان کی شناخت کی تھی۔
یاسین ملک اور دیگر ملزمان کے وکلاء نے روبیعہ سعید کے بیان پر جرح و جواب کے لیے عدالت سے مہلت مانگی تھی جس پر عدالت نے معاملہ آج سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے روبیہ سعید کو حاضر رہنے کی ہدایت کی تھی۔ بتا دیں کہ یاسین ملک پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ 8 دسمبر 1989 کو روبیہ سعید کو اغوا کرنے کا الزام ہے۔ اس کیس میں یاسین ملک کے علاوہ علی محمد میر، محمد زمان میر، اقبال احمد، جاوید احمد میر، محمد رفیق، منظور احمد صوفی، وجاہت بشیر، معراج الدین شیخ اور شوکت احمد بخشی بھی ملزم ہیں۔ 29 جنوری 2021 کو ٹاڈا کورٹ جموں نے یاسین ملک اور دیگر کو اس معاملے میں ملزم قرار دیا تھا۔
اس مشہور کیس میں ٹاڈا عدالت اب ڈاکٹر روبیہ سعید سمیت تین گواہوں کے بیانات ریکارڈ کر رہی ہے۔ ڈاکٹر روبیہ کے علاوہ فیسپی اور ڈاکٹر شہناز اس کیس میں عینی شاہد ہیں۔ 8 دسمبر 1989 کو سرینگر کے صدر پولیس اسٹیشن میں ڈاکٹر روبیہ سعید کے اغوا کے حوالے سے رپورٹ درج کی گئی۔ اس کے مطابق روبیہ لال دید اسپتال سری نگر سے سعید ٹرانزٹ وین میں نوگام میں اپنے گھر جا رہی تھیں۔ وہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد اسپتال میں انٹرن شپ کر رہی تھیں۔ ٹرانزٹ وین سری نگر کے مضافات میں لال چوک سے نوگام جا رہی تھی۔ جب وین چھان پورہ چوک کے قریب پہنچی تو تین افراد نے بندوق کی نوک پر وین کو روکا اور اس میں موجود میڈیکل انٹرن روبیہ سعید کو اتار کر سائیڈ پر کھڑی نیلی ماروتی کار میں بٹھا دیا۔ اس کے بعد ماروتی وین کہاں گئی، کوئی نہیں جانتا۔
اغوا کے تقریباً دو گھنٹے بعد جے کے ایل ایف کے جاوید میر نے ایک مقامی اخبار کو فون کیا اور بتایا کہ جے کے ایل ایف نے ہندوستان کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کر لیا ہے۔ جس نے چاروں طرف ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ اس معاملے کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی گئی۔
تحقیقات مکمل ہونے کے بعد 18 ستمبر 1990 کو جموں کی ٹاڈا عدالت میں ملزمان کے خلاف چارج شیٹ پیش کی۔ ڈاکٹر روبیہ سعید کی رہائی کے بدلے جے کے ایل ایف نے اپنے پانچ دہشت گردوں کی رہائی کی شرط رکھی تھی۔ اغوا کے 122 گھنٹے بعد 13 دسمبر کو حکومت نے پانچ دہشت گردوں حامد شیخ، الطاف احمد بٹ، نور محمد، جاوید احمد زرگر اور شیر خان کو رہا کیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر روبیہ کو رہا کر دیا گیا۔
اسی رات روبیہ سعید کو خصوصی پرواز کے ذریعے دہلی لے جایا گیا جہاں اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی محمد اور خاندان کے دیگر افراد ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ ابتدائی طور پر جے کے ایل ایف نے روبیہ کی رہائی کے بدلے 20 دہشت گردوں کی رہائی کا مطالبہ کیا لیکن بعد میں اسے سات دہشت گردوں کی رہائی کے مطالبے پر کم کر دیا گیا۔ آخر میں ڈاکٹر روبیہ کی رہائی کے بدلے پانچ دہشت گردوں کو رہا کر دیا گیا۔
اس کیس کی منگل کو عدالت میں سماعت ہوئی اور یاسین ملک دہلی کی تہاڑ جیل سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش ہوئے۔ یاسین ملک دہشت گردی کی فنڈنگ کیس میں تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ سماعت کے دوران عدالت نے یاسین ملک کے سامنے قانونی امداد کی پیشکش کی جسے ملک نے مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وہ ذاتی طور پر اپنے دلائل پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ٹاڈا عدالت نے خود پیشی کے ان کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کی واضح ہدایت ہے کہ تمام معاملات میں ملزمین کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش کیا جائے۔ اس لیے اسے کیس کی سماعت کے دوران ذاتی طور پر پیش ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ تاہم عدالت نے ان سے اپنا مطالبہ تحریری طور پر دینے کو بھی کہا ہے ۔
