ڈھاکہ ، 27 اگست :
بنگلہ دیش میں معاشی بحران مزید گہرا ہوگیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی عدم دستیابی کے خلاف مشتعل عوام سڑکوں پر نکلنے لگے ہیں۔ بنگلہ دیش کے لیفٹ ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے بلائی گئی عام ہڑتال کے دوران ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔سری لنکا میں معاشی اور سیاسی بحران کے بعد اب بنگلہ دیش میں بھی معاشی بحران ایک مسئلہ بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایندھن کی مسلسل قیمت کے باعث حکومت نے بھی ایندھن کی بچت کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ بنگلہ دیش میں اب تک اسکولوں میں جمعہ کی چھٹی ہوتی تھی۔ اب وہاں اسکول ہفتے میں دو دن بند رہیں گے۔ حکومت نے جمعہ اور ہفتہ کو اسکولوں میں تعطیل کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری دفاتر اور بینکوں وغیرہ میں کام کے اوقات کم کر دیے گئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق بنگلہ دیش کی حکومت کو ان اقدامات کا اعلان ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کے باعث کرنا پڑا ہے۔
بتایا گیا کہ گزشتہ ماہ کے دوران ملک کے خام تیل کے درآمدی اخراجات میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اب حکومت روس سے خام تیل حاصل کرنے کے امکانات تلاش کر رہی ہے۔ ملک میں مہنگائی کی شرح بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ غذائی اجناس کی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت نے روس ، ویت نام اور بھارت سے غذائی اجناس درآمد کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت 83 لاکھ ٹن گندم اور چاول درآمد کیے جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس فیصلے سے ملک میں غذائی اجناس کی مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی تاہم زرمبادلہ کا بحران مزید گہرا ہونے کا خدشہ ہے۔بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 4.5 بلین ڈالر کا قرض مانگ لیا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے ملک بھر میں غم و غصہ نظر آرہا ہے۔ لوگ سڑکوں پر آکر احتجاج کر رہے ہیں۔ بائیں بازو کے جمہوری اتحاد کی طرف سے بلائی گئی عام ہڑتال کے دوران ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ عوام نے سڑکوں پر جلوس نکال کر مہنگائی پر قابو نہ پانے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔