چٹان ویب ڈیسک
ڈنمارک کی حکمران جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے تشکیل دیا کمیشن برائے فارگاٹن ویمنز اسٹرگل نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ ایلیمنٹری اسکولوں میں طالبات کے حجاب پر پابندی عائد کی جائے جس کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔
قطری نشریارتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 24 اگست کو دی گئی یہ تجویز ان 9 سفارشات میں سے ایک ہے جن کا مقصد اقلیتی پس منظر سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے ’عزت سے متعلق سماجی کنٹرول‘ کو روکنا ہے۔
اسکارف پر پابندی کی تجویز نے ڈنمارک میں سخت ردعمل کو جنم دیا ہے جہاں خواتین سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔
آرہس یونیورسٹی کے ڈینش اسکول آف ایجوکیشن کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ارم خواجہ نے اس تجویز کے خلاف آواز بلند کی ہے، جن کی تحقیق اس بات پر مرکوز ہے کہ مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے بچے ڈنمارک کے معاشرے میں کس طرح گھومتے پھرتے ہیں۔
ارم خواجہ کے مطابق اسکارف پر پابندی سے ان لڑکیوں کو درپیش مسائل حل نہیں ہوں گے جو سماجی کنٹرول کے تابع ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے برعکس یہ پابندی بڑے مسائل کو جنم دے گی کیونکہ وہ لڑکیاں جو پہلے ہی منفی سماجی کنٹرول کا شکار ہیں، اب انہیں مزید دباؤ کا سامنا کرنا ہوگا۔
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، ایلمنٹری اسکولوں میں اسکارف کا استعمال بچوں کو دو گروپوں ‘’ہم‘ ‘ اور’ ‘وہ‘ ‘ میں تقسیم کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ مطالعہ ڈنمارک کی وزارت تعلیم کی جانب سے تحقیقی کمپنیوں نے کیا تھا جو 19 ایلیمنٹری اسکولوں اور 8 آزاد اور نجی اسکولوں کے چھٹی سے آٹھویں جماعت کے ایک ہزار 441 طلبہ کے سروے کے ساتھ ساتھ 22 طلبہ کےانٹرویوز اور 17 اساتذہ کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔
لگ بھگ 700 طلبہ پر مشتمل جٹ لینڈ کے ایک ایلیمنٹری اسکول ٹِلسٹ اسکول کے پرنسپل لون جورگنسن نے بھی تجویز کردہ اس پابندی کی حمایت نہیں کی۔
پرنسپل کا کہنا تھا کہ ایسی پابندی بچوں اور ان کے والدین کے درمیان ایک قانون بنائے گی اور بچے درمیان میں پھنس جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ میرا کام سب کے لیے ایک اچھا اسکول چلانا ہے، جہاں سب کے لیے جگہ ہو اور سب کی قدر ہو۔
