سری نگر،03نومبر:
کشمیر میں رواں سیزن میں سیب کی بہت زیادہ پیداوارجوکہ21لاکھ میٹرک ٹن ریکارڈکی گئی ، کاشتکاروں کو خوش کرنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ ان کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے تقریباً 30 فیصد کم نرخوں پر فروخت ہو رہی ہے۔بھاری نقصانات کا سامنا کرتے ہوئے سیب کے کسانوں نے اب حکومت سے مداخلت کی درخواست کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق کشمیری میوہ صنعت ستمبر 2022میں باہر کی منڈیوں بشمول آزاد پور منڈی دہلی(ایشیا کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ) میں نقل و حمل میں مسلسل رکاوٹ پر ہنگامہ آرائی کے بعد سرخیوں میں آئی۔کیونکہ سری نگرجموں شاہراہ پر سیب سے لدی گاڑیاں آسانی سے سفر نہیں کرسکیں ۔قابل ذکر ہے کہ کشمیر ملک میں سیب کی کل فصل کا تقریباً 75 فیصد پیدا کرتا ہے اور اسے جموں وکشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، جو جموں و کشمیر کی جی ڈی پی میں تقریباً8.2 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے۔فروٹ منڈی سوپور کی فروٹ گروورس ایسوسی ایشن کے صدرفیاض ملک عرف کاکہ جی کہتے ہیں کہ رواں سیزن میں کشمیری سیب کی قیمت2021 کے مقابلے میں تقریباً 30 فیصد کم ہے اور بلاشبہ متعلقہ پھل کاشتکاروں کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
حکومتی تعاون کے بغیر ان کے لئے نقصانات پر قابو پانا بہت مشکل ہے۔شمال وجنوب کشمیری مالکان باغات اورپھل کاشتکاروں کاکہناہے کہ ہم مایوس ہیں کیونکہ اس سیزن میں سیب کی پیداوار ہوئی لیکن اچھی واپسی کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔زیادہ ترپھل کاشتکار اور تاجر اپنی مالی حالت کے بارے میں خوفزدہ ہیں۔ پھل کاشتکاروں اورمیوہ تاجروںکاکہناہے کہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سری نگر،جموں قومی شاہراہ کے بار بار بند ہونے اور پھلوں سے لدے ٹرکوں کے کئی دنوں تک ایک ساتھ پھنسے رہنے کا اثر پڑا ہے کیونکہ ہم منڈیوں میں دیر سے پہنچے۔پھل کاشتکاروں اورمیوہ تاجروں نے کہا کہ 16 کلو وزنی سیب کے ہر ڈبے کا خرچہ 500روپے سے زیادہ ہے، جس میں پیکجنگ، فریٹ چارجز اور کیڑے مار ادویات اور کھادوں کا استعمال شامل ہے لیکن ہمیں فی ڈبہ اوسطاً صرف400 روپے مل رہے ہیں۔
کشمیر کی نصف سے زیادہ آبادی یعنی30لاکھ سے زیادہ نفوس بالواسطہ یا بالواسطہ طور پر باغبانی کی صنعت سے منسلک ہے جس کی مالیت 10ہزار کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔کشمیرمیں سیب کی سالانہ پیداوار تقریباً21 لاکھ میٹرک ٹن ہے۔ اس کی کاشت1,45 لاکھ ہیکٹر اراضی پر کی جاتی ہے۔پھل کاشتکاروں اورتاجروںکی تنظیموں کاکہناہے کہ حکومت کو آگے آنا ہوگا اور ہمیں بچانا ہوگا، ورنہ موجودہ حالات کے پیش نظر بھاری نقصانات پر قابو پانا بہت مشکل ہے۔
