سرینگر: وادی کشمیر میں شادیوں کا سیزن شروع ہوتے ہی مٹی سے تیار کیا جانے والا موسیقی کا روایتی آلہ ‘تمبکناری ‘ کی مانگ بام عروج پر ہے اور اس پیشے سے وابستہ کاریگر اپنے آرڈرز پورا کرنے کے لئے کام انتہائی مصروف ہیں۔ تمبکناری ایک خاص قسم کا روایتی کشمیری آلہ موسیقی ہے جسے مٹی سے تیار کیا جاتا ہے اور اس کا استعمال شادی بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات میں ہوتا ہے۔مٹی اور پانی کی آمیزش سے تیار ہونے والی تمبکناری کی گردن لمبی اور کھوکھلی ہوتی ہے اور بھٹی میں پکانے کے بعد اس پر رنگ و روغن چڑھایا جاتا ہے۔سرینگر کے نشاط علاقے میں محمد عمر کمہار نامی کاریگر ان دنوں اپنے کارخانے میں تمبکناریاں بنانے کے کام میں انتہائی مصروف ہیں کیونکہ انہیں ایک بڑے آرڈر کو ان ہی دنوں کے اندر مکمل کرکے گاہکوں تک پہنچانا ہے۔
28 سالہ محمد عمر نے بتایا کہ ‘ایک ہزار تمبکناریاں تیار کرنی ہیں جنہیں مجھے کولگام اور سوپور سپلائی کرنا ہے ‘۔کشمیر یونیورسٹی سے کامرس میں گریجویشن کرنے والے موصوف جوان سال کاریگر چند برس قبل اس وقت سرخیوں میں رہے جب انہوں نے اپنے کارخانے میں تیار ہونے والے برتنوں کو چین اور امریکہ میں مشین کے ذریعے تیار ہونے والے برتنوں سے صحت کے لئے زیادہ سود مند ہونے کا دعویٰ کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ محمد عمر کے ہاتھ سے تیار ہونے والے مٹی کے روایتی ‘سما وار ‘ کی شیر کشمیر انٹرنیشنل کنوکیشن سینٹر سرینگر میں منعقدہ حالیہ جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے دوران نمائش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ‘تمبکناری تیار کرنے کے لئے وسطی ضلع بڈگام سے خاص قسم کی مٹی لانا پڑتی ہے اس مخصوص مٹی پر سبزیاں نہیں اگتی ہیں اور نہ ہی اس کو کسی دوسرے کام کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ایک سو تمبکناریاں تیار کرنے میں کم سے کم تین دن لگتے ہیں۔موصوف کاریگر نے کہا کہ بڑے سائز کی تمبکناری کی بازار میں قیمت ڈھائی سو روپیے ہے جبکہ چھوٹے سائز کی تمبکناری کی قیمت ڈیڑھ سو روپیہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘سال بھر مجھے بڑے بڑے آرڈرز ملتے رہتے ہیں اور میرا اچھی طرح سے روز گار چلتا ہے ‘۔
محمد عمر مٹی کے برتن بنانے کی اس صنعت کو وادی میں نئی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے پر عزم ہیں۔انہوں نے کہا کہ ‘میں اس کاریگری میں نئی روح پھونکنے کے لئے رات دن محنت کرتا ہوں اس کو جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے میں نئے نئے تجرنے کرتا ہوں ‘۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس مٹی کی کھدائی پر پابندی عائد کی ہے جس سے ہمارے کام پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ مٹی کھودنے کی اجازت دیں تاکہ یہ روایتی پیشہ زندہ رہ سکے۔