نوٹ:پرویزمسعودی ہماریریاست کے ایک معروف اداکارہیں ۔خوبرو اور خوش مزاج مسعودی وادی کے پہلے ایسے نوجوان ہیں جنہیں بالی ووڈ میںبطور ہیرو کا م کرنے کا موقع ملا اور وہ بھی ’جی پی سپی‘کی بڑی فلم کمپنی کے ساتھ جنہوں نے’ شعلے‘، انداز،سیتا اور گیتا جیسی کامیاب فلمیں بنائی ہیں۔ہمارے نمائندے فاروق بانڈے کے ساتھ ایک ملاقات میں انہوں نے اپنی زندگی کے چند اہم گوشوں پر روشنی ڈالی جنہیں ہم قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
(س)۔آپ کاپورا نام؟
(ج)۔پرویز مسعودی
(س)۔تعلیمی قابلیت؟:
کشمیر یونیورسٹی سے گریجویشن کی ہے۔
(س)۔جائے پیدائش:
سرینگر
(س)۔اپنی فیملی کے بارے میں کچھ بتائے:
(ج)۔ فاروق مسعودی صاحب جو آجکل کشمیر یونیورسٹی میں ہیں،میرے بڑے بھائی صاحب ہیں، رائٹر ہیں اورفلم میکر بھی ہیں۔ میرے دوسرے بھائی صاحب خورشید مسعودی صاحب دور درشن میں اسسٹنٹ سٹیشن ڈائریکٹر کی پوسٹ پر فائز تھے اور آجکل وہ شارجہ میں ٹیلی وژن میں ہیں،ان کو وہاں تیس پنتیس سال ہوئے تو میڈیا کے ساتھ ہمارا تعلق بہت عرصے سے ہے۔
(س)۔ ایکٹنگ آپ نے کب سے شروع کی؟
(ج)۔ سکول کے دنوں سے ہی میں نے ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا۔اس کے بعد کالج میں بھی۔اسی دوران میں نے سٹیج پر بھی کام کرنا شروع کیا۔بہت سارے ڈراموں میں حصہ لیا، کئی ایورڈ بھی ملے۔ ریڈیو میں بھی کئی ڈراموں میں کام کیا، ان میں سے کچھ تو وویدبھارتی کے پروگرام’ ہوا محل‘ میں بھی نشر کئے گئے۔۱۹۷۲ میںیہاں ٹیلی وژن سٹیشن شروع ہوا تو وہاں بھی میں نے بہت کام کیا۔پہلے وہاں بچوں کا پروگرام کنڈکٹ کرتا تھا اس کے بعد ’یوتھ ‘پروگرام بھی کیا۔ ڈراموں، اور ٹی وی فلموں میں بھی کافی عرصے تک کام کیا۔ ساتھ ہی میری پڑھائی بھی جاری تھی
۔
(س)۔آپ کا پہلاسٹیج ڈرامہ کون سا تھا؟
(ج)۔ شام لعل دھر بہار پرڈیوسر ، ڈاریکٹرتھے تو ان کا پلے تھا’ کر وتلئی انسان‘ ۔ 1967میں، میں نے کام کیا پہلی دفعہ کسی سٹیج ڈرامہ میں۔ ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ اس ڈرامے میں،میں ہیرو کے چھوٹے بھائی کا کردار ادا کررہا تھا، جب سٹیج پر داخل ہونے کی میری باری آئی تو میں کچھ لمحوں کے لئے میں نے ججھک محسوس کی، اسی دوران کسی نے پیچھے سے مجھے دھکا دیکر سٹیج کی طرف دھکیل دیا اور میں نے جلدی جلدی اپنے ڈائیلاگ بولنے شروع کئے۔
(س)۔فلموں میں آپ کیسے آئے؟
(ج)۔میرے بڑے بھائی صاحب نے پونہ فلم انسٹیچیوٹ سے ڈائریکشن میں کورس مکمل کیا، تو بالی وڈ کے مشہور پروڈکشن ہاؤس سپی فلمز ، جنہوں نے شعلے،انداز،سیتا اور گیتا، برہمچاری، وغیرہ بنائی ان کے ساتھ وہ کام کرنے لگے۔ انہوں نے ہی مجھے بمبئی بلایا۔وہاں میرا سکرین ٹیسٹ ہوا جس میں میں کامیاب ہوا اور مجھے فلم ’ احساس‘ کے لئے بطور ہیروچنا گیا۔اس طرح ’ احساس‘ میری پہلی فیچر فلم تھی ۔
(س)۔اپنی پہلی ہی فلم میں آپ کو شمی کپور، ششی کپور، امجدخان، سمی گریوال جیسے بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو آپ نے کیسا محسوس کیا؟ آپ چھوٹے تھے، گبھرائے تو نہیں؟
(ج)۔فلم میں شمی کپور صاحب میرے والد تھے،امجد خان میرے سسر، ششی کپور میرے چاچا جب کہ سمی گریوال میری بؤا تھی۔ میں ان کے ساتھ کام کرتے وقت گبھرایا تو نہیں لیکن انہوں نے جس طریقے کا برتاؤکیا تو اس سے مجھے یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ میں بڑے ایکٹروں کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ فلم کا ایک واقعہ مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک سین میں شمی کپور صاحب کو مجھے تھپڑ مارنا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر ان کے ہاتھ کا تھپڑ مجھے پڑا تو میرا کیا حال ہوگا،تو میں ان کے پاس گیااور ان سے کہا کہ کیا واقعی وہ مجھے تھپڑ ماریں گے، تو انہوں نے ہنستے ہنستے کہا کہ نہیں وہی چیٹنگ والاتھپڑ ہو گا۔
(س)۔ امجد خان کے ساتھ کام کرتے کیسا لگا؟
(ج)۔ وہ بہت ہی مذاقیہ قسم کے شخص تھے۔ ایک سین میں جب ہیروئن کو بچے کی ڈیلوری کا وقت ہوتا ہے، تو شمی کپور ،امجد خان اور میں کمرے میں پہنچنے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، توجلدی میں، میں ان دونوں کے بیچ میں پھنس جاتا ہوں، تو امجد صاحب نے مجھ سے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ دیکھا سینڈوچ کیسے بنتا ہے؟۔ اس فلم میں امیتابھ بچن صاحب نے بھی گیسٹ رول کیا تھا۔ کمرے میں میرا میک آپ ہو رہا تھا تو امیتابھ جی کمرے میں داخل ہوئے۔ انہیں دیکھ کر جب بطور تعزیم میں نے کھڑے ہونے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے ایسا کرنے سے روک لیا۔ اتنی بڑی شخصیت اوراتنی نرمی ۔اس کے بعد بھی میں ان سے کئی دفعہ ملا،بمبئی کے ’سی راک‘ ہوٹل میں یا یہاں سرینگر کے اؤبرائے ہوٹل میں، وہ نہایت ہی حلیمی سے میرے ساتھ ملے، ایسے جیسا میں بھی کوئی بہت بڑا ایکٹر ہوں یا ان کا کوئی ہم عمر ہوں،میں تو ان سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں۔
(س)۔فلم احساس کے بعد آ پ نے کن فلموں میں کام کیا؟
(ج)۔احساس کے بعد میں نے فلم’ بیٹی‘ میں کام کیا۔فلم مکمل ہوئی اور کئی ملکوں میں ریلز بھی ہوئی، لیکن فلم کے دو پارٹنروں، خورشید عالم اورراجندر سنگھ آتش، جنہوںنے فلم ناگن وغیرہ لکھی، کے درمیان کوئی اَن بن ہوئی اور وہ فلم انڈیا میں ریلز نہیں ہوپائی۔ اس کے بعد میں نے ’جوانی کی لہریں‘ فلم میں کام کیا۔بہت اچھا سبجیکٹ تھا فلم کا، کلکتہ میں بہت چلی۔ اس فلم میں میری ہیروئن تھی نتاشا، جسے دیو آنند صاحب نے اپنی ایک فلم میں اپنے بیٹے کے ساتھ متعارف کرایا تھا۔ اسکے بعد ایک انگریزی فلم تھی’ فریڈے دی تھٹینتھ‘ اسی کا ریمیک تھا’ سات سال بعد‘ اس میں میں نے کام کیا۔اس میں نوین نسچل ،شرمیلا ٹیگور، سریش اوبرائے بھی تھے اور جاوید جعفری نے پہلی دفعہ ایک ڈانسر کے روپ میں اس فلم میںکام کیا۔
(س)شرمیلا ٹیگور جو کہ اس وقت ایک بڑی ایکٹر تھی،تو اس کے ساتھ کام کرتے آپ کو کیسا لگا؟
(ج)۔شرمیلا ٹیگور جی کے ساتھ کام کرتے مجھے بہت اچھا لگا۔ جن بھی بڑے اداکاروں کے ساتھ میں نے کام کیا ، سبھی بہت co-operativeتھے۔ اسی فلم کے ایک سین میں, میں شرمیلا ٹیگور جی کے ساتھ ڈائس پر گانا گاتے ہوئے ڈانس کررہا تھا تو سریش اوبرائے جو فلم میں شرمیلا ٹیگور جی کو چاہتے تھے، آئے اور انہوں نے مجھے غصے میں جھٹکے سے الگ کرکے دور پھینک دیا۔ اس پر شرمیلا جی نے اسے بتایا کہ بچہ ہے ، اتنی زور سے دور کیوں پھینک دیا؟۔ فلم کے سیٹ پر شرمیلا جی گھر سے جو لینچ لاتی تھی تو مجھے بلا کر کہتی کہ آؤپرویز میرے ساتھ شیئر کرؤ۔ایک اورفلم جو میں نے کی وہ تھی’ دل بڑا یا دولت‘۔وہ بھی ایک اچھی فلم تھی۔’جوانیکی لہریں‘میں بھی کام کیا۔
(س)۔آپ کے فلمی سفرکا اختتام کب ہوا؟۔
(ج)۔میں نے 1989میں فلم لائن کو خیر باد کہا۔اس کے بعد میں سعودی عرب چلا گیا۔وہاں دو ڈھائی سال تک رہا۔ عراق۔کویت جنگ کے وقت مجھے وہاں سے بھاگ کے آنا پڑا۔
(س)۔سعودی عرب میں آپ کیا کام کرتے تھے؟
(ج)۔سعودی عرب میں، میں مین پاؤرریکروٹمنٹ کررہاتھاایک انٹر نیشنل فرم کی طرف سے اور وہاں پر جتنی بھی بڑی بڑی کمپنیاں تھیں ان کے لئے میںریکروٹمنٹ کررہا تھا۔ان دنوں تو میں نے ہزاروں لوگوںکو نوکری دلائی اور آج اگر میں اپنے لئے کوئی نوکری ڈھونڈوں تو شاید نہیں ملے گی۔
(س)۔سعودی عرب سے لوٹنے کے بعد آپ نے کون سا کام شروع کیا؟
(ج)۔وہاں سے واپس لوٹنے کے بعد میں نے اپنی فلم کمپنی” “HISSA کے نام سے شروع کی اور دُوردرشن اور ڈی ڈی کاشُر کے لئے ڈاکو منٹریز اور ڈرامہ بنانے شروع کئے ۔ اس کے علاوہ نیشنل چینل کے لئے بھی پروگرام بنائے جنہیں کافی سراہا گیا۔ میرا ایک سیریل’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘ ڈی ڈی اردو کے لئے approve ہو گیا تھا لیکن بد قسمتی سے آج تک کام شروع نہیں ہو سکا کیونکہ مجھے اس کے لئے باضابط آفر نہیں دیا گیا۔ سیریلز میں، میں کبھی کبھی ایکٹنگ بھی کر لیتا تھا مگر اب سارا ٹائیں ٹائیں فش۔
(س)۔آپ اتنے بڑے ایکٹر ہیں اوراتنے بڑے بڑے اداکاروں کے ساتھ کام بھی کیا ہے تو کیا آپ نے ڈی ڈی کی نیشنل چینل پر کام نہیں کیا؟
(ج)۔ڈی ڈی نیشنل چینل پر میں نے کئے سیریلوں میں کام کیا۔پران کشور صاحب کے ایک سیریل’ چناروں کے سایے میں‘ ،’ آسمان جھک گیا‘‘میں بھی کام کیا۔اس کے علاوہ کئی دیگر سیریلز میں بھی میں نے کام کیالیکن اصل بات یہ ہے کہ ایکٹنگ سے میرا دل اؤبھ گیا تھا۔ صرف ایکٹنگ سے پیٹ نہیں بھرتا ، فیملی نہیں چلتی ہے، کام بھی کم ملتا تھا اور پیسے بھی کم۔تو میں نے پیٹ بھرنے،فیملی چلانے کے لئے اور کوئی اورذریعے معاش ڈھونڈ لیا۔
(س)آپ کے بھائی فاروق مسعودی صاحب ایک بہت بڑے رائٹر ہیں، کیا آپ نے کبھی کچھ تحریر کرنے کی کوشش کی؟
(ج)۔فاروق صاحب تو کہنہ مشق رائٹر ہیں اور سچ بات تو یہ ہے کہ میں نے کبھی لکھنے کی کوشش نہیں کی اور میں سمجھتا ہوں کہ مجھ میں اتنی صلاحیت بھی نہیںہے۔
(س)۔اپنے فلمی کیریئر کا کوئی خاص واقعہ جس نے آپ کو متاثر کیا ہو؟
(ج)۔بہت سارے واقعات تو ہیں لیکن ایک واقعہ جس نے مجھے بہت متاثر کیا میں بتانا چاہوں گا۔ اب سمجھ نہیں آرہا ہے کہ اس کو ایک سادہ واقع کہیں یا دردناک واقع۔ میں ایک فلم ’جوانی کی لہریں ‘میں کام کر رہا تھا، تو اس میں میرے ساتھ جو ہیرؤئن تھی اس نے میرے دوست سے جب پوچھا کہ ’ ہریش کہاں ہے‘ (اس فلم میں میرا نام ہریش تھا) تومیرے دوست نے اسے کہا کہ ہوگا کہیں، وہ تو گاؤں گاؤںجاتا ہے،نئی نئی لڑکیوں کے ساتھ عیش کرتا ہے، اورہیرؤئن میرے متعلق سوچنے لگتی ہے، یا یہ کہیں کہ تصور کرنے لگتی ہے کہ میں اس وقت کیا کررہا ہو گا۔ اس کے تصور کا سین میں ،میں ایک جوان لڑکی کی قمیض کی zip پیچھے سے کھولتا ہوں۔ جس وقت یہ سین کمرے میں شوٹ ہو رہا تھا اس وقت اس لڑکی کا باپ باہر سردی میں ایک بینچ پر بیٹھا اس کا انتظارکررہا تھا اور اندر وہ لڑکی چند روپیوں کے لئے میرے ساتھ وہ سین شوٹ کررہی تھی۔ سین ختم ہونے کے بعدمیں بہت دکھی ہوا کہ اس لائن میں کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔میں نے عشاء کی نماز پڑھی اور گڑ گڑا کر اللہ سے دعا کی کہ وہ میری روزی روٹی کے لئے کوئی اور انتظام کرے اور اللہ کا شکر ہے کہ اس واقع کے کچھ ہی عرصے کے بعد مجھے وہ سعودی عرب والے جاب کی آفر ملی اورمیں وہاں چلا گیا۔
(س)۔نوجوان نسل جو ایکٹنگ میںآنا چاہتے ہوں، ان کے لئے کوئی پیغام؟
(ج)۔کشمیر میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ جو نوجوان اس لائن میںآنے چاہتے ہوں انہیں محنت کرنی چاہئے۔ یہاںپر ڈی ڈی ڈراموں اور سریلزمیں کام کرنے کا موقع ملتا تھا جو کہ اب کسی وجہ سے بند ہی ہو گیا ہے۔لیکن ٹیلنٹڈ نوجوان ریاست کے باہر بھی جاکر کام کرسکتے ہیں۔ میرا صرف یہی پیغام ہے ان کے لئے کہ وہ ایکٹنگ کو اس وقت تک اپنا پروفیشن نہ بنائے جس وقت تک کہ وہ کوئی بڑا مقام اپنے لئے پیدانہ کر سکیں کیونکہ جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی کہا کہ صرف ایکٹنگ سے پیٹ یا فیملی نہیں چلائی جا سکتی ہے۔