سرینگر//لداخ یوٹی انتظامیہ کی بوکھلاہٹ آج اُس وقت دیکھنے کو ملی جب نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ کے کاروان کو زیرو پوائنٹ منی مرگ میں روکا گیا اور اُن کی سیکورٹی کو آگے جانے اجازت نہیں دی گئی اور انہیں سیکورٹی کے بغیر ہی دراس اور کرگل کے اپنے دو روزہ دورے پر روانہ ہونا پڑا۔
یاد رہے کہ عمر عبداللہ لداخ ہل ڈیولپمنٹ کونسل (کرگل) کی انتخابی مہم کے سلسلے میں کرگل جارہے تھے ، اس دوران انہوں نے دراس اور کرگل میں چنائو جلسوں سے خطاب کیا ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں لداخ انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہاکہ ان لوگوں نے نیشنل کانفرنس کے اُمیدواروں کو ہل والا جھنڈا استعمال کرنے سے روکنے کیلئے بہت جتن کئے لیکن انہیں ہر ایک جگہ منہ کی کھانی پڑی۔ پہلے ان لوگوں کو عدالت عالیہ سے ہار سامنا کرنا پڑا اور پھر عدالت عالیہ کے ڈویژن بیچ سے پھٹکار کھانی پڑی ۔
لیکن ان لوگوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا یہ لوگ سپریم کورٹ تک پہنچ گئے لیکن وہاں بھی انہیں منہ کی کھانی پڑی اور انہیں وہاں سے ایسے جوتے پڑے جو یہ زندگی بھر بھول نہیں پائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں یو ٹی میں اپنی سیکورٹی لانے کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ اس سے قبل اسی سال میں نے اپنی سیکورٹی سمیت یہاں کا دورہ کیا تھا۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اور کرگل کا ایک ایسا رشتہ ہے جو ٹوٹنے والا نہیں ۔ اگرچہ ہمارے اُمیداروں کو انتظامیہ کی طرف سے بہت زیادہ تنگ کیا جارہاہے لیکن مجھے پوری اُمید ہے کہ ہمارے اُمیدوار بھاجپا کے اُمیدواروں کی ضمانت ضبط کر دیں گے۔ کرگل کے عوام سے اپنے ووٹ کا استعمال صحیح ڈھنگ سے کرنے کی اپیل کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ 5اگست2019کے بعد یہ پہلا موقعے ہے جب آپ کو اپنی آواز بلند کرنے کا موقع فراہم ہورہاہے، 4اکتوبر کو نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا کی نظریں آپ پر مرکوز ہونگی اور آپ اپنے ووٹ کے ذریعے صاف صاف الفاظ میں یہ پیغام بھیج سکتے ہیں کہ آپ کو 5اگست2019کے فیصلے قبول ہیں یا ناقابل قبول ہیں۔عمر عبداللہ نے کہا کہ 5اگست2019کے بعد کرگل کو کیا نیا دیا گیا؟ زوجیلا ٹنل کا سنگ بنیاد میں نے راہل گاندھی کیساتھ مل کر ڈالا، ٹرانسمیشن لائن، پاور ہائوس اور جو بھی دیگر پروجیکٹ ہیں یہ سب 2019سے پہلے کے ہیں۔
نیز 2019کے بعد یہاں کچھ نیا نہیں آیا بلکہ صرف نقصان ہوا۔ ہمیں لگا تھا کہ یہ لوگ کرگل کے ائرپورٹ کیلئے کم از کم ایک مستقل پرواز کا انتظام کریں گے لیکن ان سے وہ بھی نہیں ہو پایا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے کرگل کے لئے جو کام کئے ہیں وہ گنتے گنتے ہم تھک جائیں گے، لیکن اس وقت بھاجپا کے اشاروں پر ناچنے والی انتظامیہ نے یہاں دبائو بنائے رکھا ہے، ہل کونسل کے چیئرمین سے پوچھئے اُن پر کتنا دبائو ہے؟5ہزار کروڑ فنڈس کی بات تو کی گئی لیکن جتنا دیا گیا اُس میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ بھاجپا کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہاکہ ’’جو لوگ بھاجپا کے نام پر یہاں ووٹ مانگتے ہیں میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ آپ کی تنظیم کے مسلمانوں کے تئیں کیا خیالات ہیں؟
پارلیمنٹ میں جس رکن پارلیمان نے لوک سبھا میں مسلمان کیخلاف زہرافشائی کی اور جو نازیبا الفاظ استعمال کئے اُس کا جواب کون دے گا؟مسلمانوں کیخلا ف زہرافشائی کرنے والے ممبر پارلیمنٹ کو بطور انعام راجستھان انتخابات میں بڑی ذمہ داری کیوں سونپی گئی؟ انہوں نے کہاکہ جو لوگ بھاجپا کی ٹکٹوں پر یہاں الیکشن لڑرہے ہیں وہ ہمیں بھاجپا میں ایک مسلمان ممبر پارلیمنٹ دکھائے؟کیا 800سیٹوں میں سے ایک پر بھی مسلمان کا ہونا حق نہیں ؟ آزادی کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جب مرکزی حکومت میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں ہے حالانکہ مسلمان ملک کی 14فیصد آبادی ہیں یعنی22کروڑ سے زیاد ہ ہے۔
کیا 22کروڑ مسلمانوں میں آپ کو ایک بھی ممبر پارلیمنٹ یا وزیر نہیں ملا؟آخر اتنی نفرت اور ضد کیوں؟عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ لوگ باقی ملک میں مسلمانوں کیخلاف جو کررہے ہیں وہ ہمارے اور کرگل کے عوام کی آنکھوں سے اوجھل نہیں، کس طرح سے مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر بلڈوزر چلائے جاتے ہیں، کس طرح سے ہماری بیٹیوں کو کالجوں اور سکولوں میں کو اپنی من مرضی حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، ہم سب اُس سی بخوبی واقف ہے۔ جو لوگ کرگل میں بھاجپا کے نام پر الیکشن لڑ رہے ہیں میں اُن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ بھی یہی سوچ رکھتے ہیں؟نیشنل کانفرنس نائب صدر نے کہا کہ 2019کے بعد لداخ خطے کو بہت نقصان پہنچا، جموںوکشمیر میں آج نہیں تو کل الیکشن ہونگے وہاں اپنی حکومت بنے گی لیکن کرگل اور لداخ سے کوئی وزیر، ایم ایل اے، ایم ایل سی یا راجیہ سبھا ممبر نہیں بنے گا۔ ان لوگوں نے لداخ خطے کو کھوکھلا کر ڈلا، باہر سے لوگ آتے ہیں ، اپنی من مرضی کے مطابق یہاں پر راج کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، نصف سے زیادہ ایسے لوگ ہیں جو یہاں کی جغرافیائی حالات اور لوگوں کے مزاج سے بالکل نابلد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ خود کو جمہوریت کی ماں سمجھتے ہیں ، انہوں نے 5اگست2019کے روز کرگل کے عوام سے رائے کیوں نہیں لی؟ آج تو لیہہ والوںکو بھی یوٹی کی تسلی ہوگئی ہے اگرچہ ہم اُن کو اُس وقت بھی کہتے تھے آپ کو یو ٹی بننا بھاری پڑے گا، لیکن وہ اپنے مطالبے پر ڈٹے رہے لیکن اُن کا اب تسلی ہوگئی ہے، اب وہ ریاست اور اسمبلی مانگتے ہیں اور دفعہ370کے تحت حاصل حقوق کی مانگ کرتے ہیں ۔ چنائو جلسوں سے پارٹی کے معاون جنرل سکریٹری قمر علی آخون، سینئر لیڈر و سابق وزیرآغا سید روح اللہ مہدی، ٹریجرر شمی اوبرائے، صوبائی صدر ناصر اسلم وانی اور ترجمانِ اعلیٰ تنویر صادق نے بھی خطاب کیا۔