پرانی روایات کو بحال رکھتے ہوئے مالی سال کے آخر پر ایک بار پھر سرکاری ٹریجریوں نے کئی حلقوں کو مایوس کیا ۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ چھٹیوں کے باوجود سنیچر کے علاوہ اتوار کو بھی بینک اور ٹریجریاں کھلی رہیں گی تاکہ ادائیگیوں میں آسانی ہوجائے ۔ اس اعلان سے کئی حلقوں کو خوشی ہوئی تھی کہ شاید واجب الادا تمام رقوم واگزار کئے جائیں گے اور عید سے پہلے ہی عیدیانہ مل جائے گا ۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔ اس وجہ سے ان حلقوں کو سخت مایوسی ہوئی ۔ حکومت نے ملازموں کی ان تمام بلوں کو کلیئر کیا تھا جو کئی مہینوں سے رقوم مہیا نہ ہونے کی وجہ سے رکی پڑی تھیں ۔ ایسی بلوں میں جی پی فنڈ اور دوسری بہت سی ادائیگیاں شامل بتائی جاتی ہیں ۔ تاہم ٹھیکہ داروں کو اس وقت مایوسی ہوئی جب ٹریجری آفیسروں نے ان کی بلوں کے حوالے سے رقوم موجود نہ ہونے کا اعلان کیا ۔ اس پر ٹھیکہ داروں نے کئی علاقوں میں احتجاج بھی کیا ۔ لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ ان ٹھیکہ داروں نے الزام لگایا کہ کروڑوں روپے جان بوجھ کر لیپس کئے گئے اس کے بجائے کہ جائز ادائیگیاں کی جاتی ۔ جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع کے حوالے سے کہا گیا کہ 80 کروڑ روپے لیپس کئے گئے جبکہ کئی ٹھیکہ دار اس انتظار میں تھے کہ مہینوں سے رکی پڑی ان کی ادائیگیاں واگزار کی جائیں گی ۔ یہ ٹھیکہ دار امید کررہے تھے کہ اس مرحلے پر ان کے رکے پڑے رقوم ضرور واگزار کئے جائیں گے ۔ تاہم ایسا نہیں ہوسکا ۔ اس سے صرف ٹھیکہ داروں کا افسوس نہیں ہوا بلکہ ان کے ساتھ جو مزدور کام کررہے ہیں ان کی مزدوریاں بھی اس بہانے سے روک دی گئی ہیں کہ سرکار نے فنڈس واگزار نہیں کئے ۔ خاص طور سے دیہی ترقی محکمے کے ساتھ کام کررہے ٹھیکہ دار جو اصل میں پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان مزدوروں کو یومیہ مزدوری ادا نہیں کرپاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ٹھیکہ داروں کے ساتھ مزدور بھی تشنہ رہے ہیں ۔
سرکار کا کہنا ہے کہ اس کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہے بلکہ جو کام ہاتھ میں لئے گئے ہیں ان کے لئے رقوإ پہلے ہی واگزار کئے گئے ۔ تاہم کچھ تکنیکی بنیادوں پر فنڈس کی ادائیگی ممکن نہ ہوسکی ۔ اس حوالے سے ٹھیکہ داروں اور ذیلی دفتروں میں کام کرنے والے ملازموں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جو وقت پر فنڈس واگزار کرانے کی کاروائی میں سست پائے جاتے ہیں ۔ اس کی سزا کم سطح کے ٹھیکہ داروں اور غریب مزدوروں کو ملتی ہے ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے ۔ بلکہ ماضی میں اکثر اس طرح کا تجربہ ہوا ہے اور واجب الادا بلیں روک دی گئی ۔ تاہم اس بار اس روایت کے ٹوٹنے کی امید کی جارہی تھی ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ضرورت سے زیادہ رقوم موجود ہیں اور مالی استحکام میں ریاست بہت آگے ہیں ۔ اس دوران معمر افراد کے حق میں چھے یا نو مہینوں سے رکے پڑے وظیفے واگزار کئے گئے ۔ سماجی بہبود محکمے کی طرف سے اولڈ ایج پنشن جو ماہانہ معمر افراد کے حق میں واجب الادا ہوتی ہے پچھلے کئی مہینوں کے دوران ادا نہیں کی گئی تھی ۔ سرکار نے اس حوالے سے برا فیصلہ لیتے ہوئے یہ تمام رقم ایسے مستحق افراد کے حق میں واگزار کی ۔ یہ رقم ان کے بینک کھاتوں میں ڈالی گئی جس سے اس طبقے کے بے سہارا افراد کو کافی سہارا ملا ۔ تاہم ٹھیکہ داروں کے حق میں یہ سولیت میسر نہ آئی ۔ پنشنروں اور دوسرے کئی طبقوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کے حق میں جو رقوم اداکرنے کی یقین دہانی کی گئی تھی بروقت ادا نہیں کی گئی ۔ انہوں نے اس حوالے سے سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ واجب الادا بلوں کے حوالے سے لوگوں کو تڑپایا جاتا ہے اور رقوم بروقت ادا نہیں کی جاتی ہیں ۔ معلوم نہیں کہ ملک کے باقی حصوں میں بھی ایسا ہوتا ہے یا صرف کشمیر میں اس روایت کو بحال رکھا جاتا ہے ۔ کئی ٹھیکہ داروں کا کہنا ہے کہ جموں میں رقوم کی ادائیگی کے حوالے سے اس طرح کی مشکلات کا سامنا نہیں رہتا ہے جیسا کشمیر میں عام طور پر ہوتا ہے ۔ ماضی میں الزام لگایا جاتا تھا کہ رشوت کی رقم ادا نہ کرنے کی وجہ سے بلوں کو روکا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا تھا کہ جو ٹھیکہ دار کچھ حصہ ٹریجری آفیسروں اور دوسرے عملے کو ادا کرتے ہیں ان کی بلیں چوری چھپے واگزار کی جاتی ہیں ۔ اس زمانے میں مارچ کے آخری ایام کے دوران ایسے کام مبینہ طور رات کے اندھیرے میں ہوجاتے ہیں ۔ ٹریجریوں کا عمل کسی گھر میں بیٹھ کر یا ہوٹل کا کمرہ بک کراکے وہاں یہ ناجائز دھندہ انجام دیتا تھا ۔ کچھ سالوں سے ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا تھا ۔ لیکن اس سال ایک بار پھر کئی طرح کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں اور رقوم واگزار نہ کرنے کے حوالے سے من مانی کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ سرکار کو چاہئے کہ اس حوالے سے مثبت سوچ سے کام لے کر عید سے پہلے ایسی رقوم ادا کرنے کا قدم اٹھائے ۔ حکومت نے کئی بار لوگوں کے مطالبات پورے کئے اور لوگوں کے احتجاج سے پہلے ہی انہیں سہولت پہنچانے کی کوشش کی ۔ سرکاری ملازموں کو کئی موقعوں پر ان کی امیدوں سے بڑھ کر الائونس دئے گئے ۔ لیکن اب اتنی مستعدی سے کام نہیں لیا جاتا ہے ۔ ملازموں کو جو چار فیصد الائونس واگزار کرنے تھے اس کا فیصلہ تاحال نہیں لیا گیا ۔ ان باتوں سے لوگ سخت مایوس نظر آتے ہیں ۔