سرینگر : لوک سبھا انتخابات 2024 ووٹوں کی گنتی چار جون کو ہوگی۔ چار جون یعنی نتائج کے اعلان کی تاریخ نزدیک آنے کے ساتھ ہی جموں و کشمیر میں سیاسی پارٹیاں انتخابات میں جیت کی امید کے ساتھ تیاریاں کر رہی ہیں۔ جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری میں پانچ پارلیمانی نشستوں اور لداخ کی ایک نشست پر پھیلے ہوئے یہ انتخابات اس سال کے لوک سبھا انتخابات کے ابتدائی چھ مراحل میں ہوئے۔ جموں و کشمیر میں ووٹوں کی گنتی ملک کے باقی حصوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ چار جون کی صبح شروع ہونے والی ہے۔
سرینگر میں نیشنل کانفرنس کے ہیڈکوارٹر میں، جوش و خروش کا ایک واضح احساس فضا میں چھایا ہوا ہے۔ پارٹی کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ این سی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ – جو بارہمولہ نشست سے پارٹی کے ایم پی امیدوار ہے – نے انتخابی عمل کے دوران اپنے کیڈر کی انتھک لگن کی تعریف کی ہے۔ این سی کے ایک سینئر کارکن نے وادی کی تینوں نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنی خواہشات کی تکمیل (یعنی تینوں نشستوں پر این سی کی جیت) پر شاندار جشن منانے کا وعدہ کیا۔
اس کے باوجود عمر عبداللہ نے محتاط لہجے میں ایگزٹ پولز کے قابل اعتماد ہونے پر سوال اٹھایا، اور تجویز کیا کہ وہ اکثر حقائق پر مبنی رجحانات کی بجائے ’’خواہش مندانہ سوچ‘‘ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک ٹویٹ میں عمر عبداللہ نے موجودہ منظر نامے اور 2019 کے انتخابات کے درمیان مماثلتیں بیان کرتے ہوئے انتخابات سے پہلے کی بیان بازی اور ایگزٹ پول کے تخمینے کے درمیان فرق کو واضح کیا۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں تبصرہ کیا: ’’ڈیجا وو۔ پانچ سال پہلے مہم کے دوران – ’وہ ہندو مسلم (مدعے) پر واپس چلا گیا ہے، بی جے پی مشکل میں ہے۔‘ کیا آپ نے نمبر دیکھے ہیں؟ میں افسردہ ہوں، یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
اس کے برعکس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے زیادہ محفوظ موقف کا انتخاب کیا ہے۔ پی ڈی پی کے ترجمان نے اپنی حتمی فتح پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے، گنتی کے مقامات کے قریب پیش رفت کا انتظار کرنے کے اپنے ارادے کا اور اشارہ کیا۔ قابل ذکر ہے کہ پی ڈی پی کے یوتھ ونگ نے اپنے ٹویٹر ہینڈل کا نام ‘انشاء اللہ محبوبہ مفتی کے نام کیا، جو اننت ناگ-راجوری حلقہ پر انتخابات لڑ رہی ہے کامیابی کے لیے پر امید نظر آ رہی ہے۔ الطاف بخاری کی زیرقیادت اپنی پارٹی اور سجاد لون کی پیپلز کانفرنس کے رہنماؤں نے 4 جون 2024 کو نتائج کا انتظار کرنے کا مشورے دینے کے علاوہ کوئی تبصرہ پیش نہیں کیا۔
جموں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا ہیڈکوارٹر خوشی کے لیے تیار ہے۔ زعفرانی پرچم لہرانے کے ساتھ ہی فتح کے جشن کی توقع میں ایک اسٹیج تیار کیا گیا ہے۔ بی جے پی نتائج کے بعد کے مرحلے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے، جب کہ رضاکار پارٹی حامیوں کو مٹھائیاں تقسیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
دریں اثنا، کانگریس پارٹی جموں میں دو اور لداخ میں ایک سیٹ حاصل کرنے کی امیدوں پر اپنی امید برقرار رکھے ہوئے ہے۔ حکام نے جموں و کشمیر میںووٹوں کی گنتی کے لیے نو گنتی مراکز قائم کیے ہیں، جن میں دہلی میں ایک اضافی مرکز کو کشمیری تارکین وطن (Kashmiri Pandits) کے ووٹوں کی فہرست بنانے کا کام سونپا گیا ہے۔ نتیجہ 100 امیدواروں کی قسمت پر مہر لگا دے گا، جن میں سینئر بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ، سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی اور دیگر قابل ذکر سیاسی شخصیات شامل ہیں۔
خطے میں مجموعی طور پر 58.46 فیصد ووٹ ڈالے گئے، جو گزشتہ تین دہائیوں کی بلند ترین سطح / ووٹنگ شرح ہے۔ خاص طور پر سری نگر، بارہمولہ، اور اننت ناگ-راجوری نے حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا۔
گنتی کی کارروائیاں کٹھوعہ، بارہمولہ، اننت ناگ، راجوری اور سرینگر کے سرکاری کالجوں سمیت مختلف علاقوں میں شروع ہونے والی ہیں۔ جموں میں گنتی کا عمل گورنمنٹ پولی ٹیکنیک کالج اور گورنمنٹ ایم اے ایم کالج میں ہوگا، جب کہ جموں، ادھم پور اور نئی دہلی کے نامزد مراکز کشمیری تارکین وطن کے ووٹوں کی گنتی کریں گے۔