ویب ڈیسک
طالبان حکام نے اتوار کو اقوام متحدہ کی زیر قیادت افغانستان پر ہونے والے ایک اجلاس میں شرکت کی۔
منتظمین کی جانب سے یہ کہنے کے بعد کہ کانفرنس میں خواتین شریک نہیں ہوں گی، طالبان نے شرکت کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
اس اجلاس میں یورپی یونین، امریکہ، روس اور چین سمیت تقریباً 25 ممالک اور علاقائی تنظیموں کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔
طالبان حکام کو پہلی میٹنگ میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ فروری میں ہونے والے دوسرے اجلاس میں طالبان نے شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ طالبان کی جانب سے افغان سول سوسائٹی کی تنظیموں کی شمولیت پر اعتراض کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق اور افغان خواتین کی تنظیموں نے اقوام متحدہ کے حکام کے فیصلے پر سخت تنقید کی تھی۔
حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کے حکام نے کہا تھا کہ افغان خواتین اجلاس میں شرکت نہیں کریں گی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ خواتین کے حوالے سے عالمی برادری کو ایک واضح اور متفقہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔
2021 میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان حکام نے منظم طریقے سے خواتین کے حقوق کو سلب کیے ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کو پرائمری سکول سے آگے کی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا گیا ہے اور تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے علاوہ زیادہ تر ملازمتوں پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے، اور وہ محرم کے بغیر طویل سفر بھی نہیں کر سکتیں۔اقوام متحدہ کے حکام نے اس ہفتے افغان خواتین کو مذاکرات میں شامل نہ کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت میں خواتین کے حقوق کا معاملہ اٹھایا جائے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ طالبان حکام کے ساتھ مذاکرات سے پہلے اور بعد میں افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے۔
افغان سماجی کارکن رخسانہ رضائی کا کہنا ہے کہ ’آزادی اور انسانیت پر یقین رکھنے والے تمام لوگوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اس اجلاس کا بائیکاٹ کریں کیونکہ یہ اجلاس نہ تو افغان عوام کے فائدے اور نہ ہی افغان خواتین کے فائدے کے لیے ہے۔‘
وہ حکام جو طالبان کو مذاکرات میں شامل رکھنے کے خواہاں ہیں، انسداد دہشت گردی جیسے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے حکام نے گزشتہ ہفتے اس بات پر زور دیا تھا کہ طالبان حکام کے ساتھ ہونے والی کانفرنس کا مطلب اس تنظیم کو افغانستان کے جائز حکمران کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کرنا نہیں۔ آج تک کسی ملک نے بھی طالبان کو تسلیم نہیں کیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد جو وفد کی قیادت کر رہے ہیں، نے سنیچر کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ طالبان ’خواتین سے متعلق مسائل کو تسلیم کرتے ہیں۔‘ ’لیکن یہ مسائل افغانستان کے مسائل ہیں۔‘