سری نگر، 8 اگست (یو این آئی) ان پرائیویٹ اسکول جن کا رجسٹریشن خطرے میں تھا، کو راحت دیتے ہوئے جموں وکشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے جمعرات کو ہدایت جاری کی کہ نجی زمین کے علاوہ دوسری املاک پر چلائے جا رہے اسکول یا تو ملکیتی زمین حاصل کرسکتے ہیں یا اس کے بدلے میں یہ اسکول زمین کے لئے حکومت سے رجوع کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس (قائم مقام) تاشی ربستان کی جانب سے جاری حکم نامے میں ان تمام اسکولوں سے کہا گیا جنہوں نے عدالت میں در خواستیں دائر کی تھیں کہ وہ چار ہفتوں کے اندر اپنی در خواستیں حکومت کے سامنے جمع کرائیں۔
حکمنامے میں کہا گیا: ‘یہ تمام در خواستیں آج سے چار ہفتوں کے اندر درخواست گذاروں کی طرف سے درج کی جائیں گی،پرنسپل سکریٹری محکمہ سکول ایجوکیشن،جموں وکشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن ایسی درخواستوں کی وصولی پر، اس کا فیصلہ یا تو خود کریں گے یا ایک کمیٹی تشکیل دے کر، جس میں محکمہ سکول ایجوکیشن اور بورڈ آف اسکول ایجوکیشن اور محکمہ مال کے سینئر افسران شامل ہوں گے،یا کوئی اور محکمہ جو مناسب سمجھا جائے گا، اور ایسی در خواستوں کا فیصلہ چار ماہ کے اندر کرائیں، ایسا کرتے وقت در خواست گذاروں کی بھی سماعت کی جائے گی’۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کے اپریل 2022 کے قواعد،جس سے 100 سے زیادہ نجی اسکول اپنی رجسٹریشن کو بر قرار رکھنے کے لئے جد و جہد کر رہے تھے،جس نے محکمہ مال کو ہدیات کی تھی کہ وہ ان سکولوں کی شناخت کرے جو نجی ملکیت کے علاوہ زمین پر تعمیر کئے گئے ہیں تاکہ محکمہ تعلیم کے ذریعہ ان کی رجسٹریشن کو ختم کیا جا سکے۔
حکمنامے میں کہا گیا: ‘جہاں کاہچرائی/ شاملات وغیرہ جیسی زمین پر اسکول چلائے جا رہے ہیں، اس میں در خواست گذار یا تو ملکیتی اراضی حاصل کرسکتے ہیں یا جواب دہندہ یا جواب دہندہ اتھارٹی (پرنسپل سکریٹری برائے محکمہ تعلیم، جموں و کشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن) کی طرف اپنی درخواستوں جو ان کی طرف سے متعلقہ رٹ درخواستوں میں غور کرنے کے لئے کی گئی ہیں، کے ساتھ رجوع کریں جس میں کاہچرائی/شاملات وغیرہ جیسی زمین کے بدلے ملکیتی زمین کا تبادلہ بھی شامل ہوسکتا ہے جیسا کہ محکمہ مال کے ایکٹ کے تحت دستیاب ہو’۔
عدالت کے حکمنامے میں کہا گیا: ‘رٹ درخواستوں/ کیسز کے ضمن میں جہاں کاہچرائی/ شاملات وغیرہ جیسی اراضی نہ ہو وہ (رٹ در خواست گذار) پرنسپل سکریٹری محکمہ تعلیم، جموں وکشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی طرف بھی آج سے چار ہفتوں کے اندر رجوع کر سکتے ہیں’۔
حکمنامے میں کہا گیا: ‘ایسی در خواستیں موصول ہونے پر وہ یا تو خود فیصلہ کریں گے یا ان کی طرف سے تشکیل شدہ کمیٹی کے ذریعے چار ماہ کی مدت میں فیصلہ کیا جائے گا اور ایسا کرتے وقت درخواست گذاروں کو بھی سنا جائے گا اور تب تک درخواست گذاروں کو اسکول چلانے کی اجازت دی جائے گی بشرطیکہ وہ فوری معاملہ کے زیر التوا حالات میں تبدیلی کے پیش نظر ایسا کرنے کے قابل ہوں کیونکہ ان سکولوں میں زیر تعلیم طلبا کو دوسرے سکولوں میں منتقل کیا گیا ہے’۔
ہائی کورٹ نے کارروائی ختم کر دی اور توہین عدالت کی درخواستیں بند کر دی گئیں۔