دَل بدلیاں! سیاست خدمت یا تجارت؟
تحریر:ش ۔م ،احمد
سیاسیات کے اطالوی مفکر میکاؤلی نے پتے کی بات کہی ہے کہ سیاست میں اخلاقیات کا سرے سے ہی کوئی عمل دخل نہیں‘اشتراکیت کے نظریہ دان لینن سیاست میں اخلاقی اقدار کی ضرورت پر علی الاعلان کہتا کہ مجھے اخلاق اور پاجامے میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کا آپشن دیا جائے تو میں پاجامے کوچن لوں گا ‘ مولاناابوالکلام آزاد جیسے جید عالم اور میدانِ سیاست کے شہسوار کا نظریہ تھا کہ سیاست کا دل نہیں ہوتا۔ بعینہٖ کئی ایک دانشوروں کاخیال ہے کہ سیاست میں دوست مستقل ہوتے ہیں نہ دشمن‘ وقت کی ضرورت کے ساتھ دوستی اور دشمنی کے پیمانے اَدلتے بدلتے ہیں ‘ سیاسی لین دین میں نئےرشتے بن سکتےہیں ‘ پرانے ناطے ٹوٹ سکتے ہیں ۔’ نئے جب دوست بنتے ہیں پرانے بھول جاتے ہیں‘ کے مصداق سیاست ہے ہی کچھ ایسی بلا کہ پل بھر میں مفادات کے خم خانہ دوستی اور دشمنی کے مطالب اُلٹا پلٹ ہوتے ہیں۔ نظریۂ ضرورت بھی اصلاًسیاسی سودوزیاں کے بغل بچے کانام ہے ۔ عملی سیاست کے بارے میں ہم بڑے بڑوں کےجچے تلے خیالات وآرا سے چاہے اتفاق کریں یا اختلاف مگر شاید یہ حقیقت جھٹلا ئی نہیں جا سکتی کہ ان باتوں کا عملی اطلاق ہم روز سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ یہ کل یُگ ہے اور اس کی سیاست کاری حسین وعدوں ‘ کھوکھلے دعوؤں‘کھلی آنکھ کےخوابوں اورخیالی پلاؤں کی کھیتی میں ہو تی ہے۔ا س لئے آج کی سیاست کو خدمت ِخلق کی آغوش میں پلا بڑھا نیک وصالح بچہ سمجھنا ایک سرکش بھول اور ایک نقصان دہ خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ کو ئی انکار کر سکتاہے کہ زیادہ تر پالی ٹیشنز کی سیاست دانی کی رام کہانی ذاتی اغراض‘نجی مفادات اور گروہی مصلحتوںکے گرد گھومتی ہے‘ اس کی خوردونوش جھوٹ کے لذیذ پکوانوں پراور اس کا سفر لوٹ کھسوٹ کی زادِ راہ پر منحصر ہوتا ہے ۔ ہاں‘ بے شک سیاست کے اس عموم سے گاندھی اور منڈیلا جیسےنیک نہاد روحوں کو ایک استثنٰی سمجھ کر انہیں الگ ہی دنیا کے سیاسی مخلوق کہہ سکتے ہیں ۔ان کے علاوہ کوئی ایک مثال ہو تو بتائیں‘ سیاسی دنیا میں کہیں کوئی ایسی اُمید کی نظر نہیں آرہی ہو‘مطلع فرمائیں۔
آنکھوں دیکھا سچ یہ ہے کہ کا فر ادا عصری سیاست کا غمزہ ٔ خوں ریز سیاست کاروں سے عجیب وغریب تماشے کرواتی ہے ۔ ہم جن نیتاؤں کو ایک دن پھول مالاؤں کابھاری بھرکم بوجھ اپنی موٹی گردن پر سنبھالے ایک ہی پنڈال پر ایک ہی صف میں ہنستے مسکراتے‘تالیاں بجاتے اور تقریریں جھاڑتے یک جان ودوقالب کی طرح یکجا پاتے ہیں جیسے سات جنم سےہم قدم ہم سفر ہم خیال ہوں ‘ ہم انہیںحلوے مانڈے کے یار سمجھتے ہیں‘ جنم جنم کا رشتہ نبھانے والے بڑی ہستیاںتسلیم کرتے ہیں‘ ایک ہی نظریے کے پیروکار ‘ ایک منزل کے راہی ‘ایک مفکورے کےوفا دار سپاہی ہونے کا اچھا تاثر دل میں نقش کرتے ہیں ‘ لیکن اگلے دن جب سیاست کامیکدہ اُنہیں سیاسی نشے میں دُھت بہکاتا ہے تو اپنی آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی پر یقین نہیں آتاکہ یہ حضرات کیسے زبان ‘ لب و لہجہ اور تقریروں کا متن بدلتے ہیں‘ یکایک اپنا پالا بدل کر پلٹورام کی مضحکہ خیزپھبتی کماتے ہیں ‘ اُن کی سیاسی وفاداریوں کا قبلہ یک قلم دوسرا رُخ اختیار نہیں کر جاتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے لئے اُن کی آنکھ کا پانی بھی سوکھ جاتا ہے ‘ وہ باہم دگر برہنہ شمشیر بن کر اپنے کل کے سیاسی نعرے نظریے پارٹی ایجنڈے کی سر بازار مٹی پلیڈ کرتے پھرتےہیں ‘ سابقہ سیاسی یاروں کی بُرائیاں گنا گنا کر نئے سیاسی دوستوں کی اچھائیوں کے گن گان میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں ‘ سیاسی سرکس میں قلابازیوں کی کرتب دکھاتےہوئے جن زبانوں سے کل کسی کو جگری دوست جیون بھرکاساتھی کہا‘ آج اُنہی دہانِ مبارک سے اُسے اَزلی دشمن‘ کٹّرمخالف‘ ویلن‘ حریف اورنہ جانے کن کن بُرے القابات سے یاد کرتےہیں ‘ جس ٹولے کو وہ اب اپنا نیا دوست کہتےاتراتے ہیں ‘اُسی کے بارے میں کل کلاں اپنی زبان ِ شریف سے کیا کیا گل فشانیاںکیں‘ اس کو یاد کیجئے تویہ مغالطہ لگے گا کہ’’ پلٹ کر جھپٹنا جھپٹ کرپلٹنا ۔ لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ ‘‘ شایدانہی سیاسی اداکاروں کے لئے کہا گیا ہے ۔
جموں کشمیرمیں دس سالہ وقفے سے جونہی الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اسمبلی الیکشن کا خوش آئند بگل بجایا ‘ تو تمام سرگرم سیاسی جماعتوں حتیٰ کہ غیر فعال حریت کانفرنس کی ایک ا کائی کے سربراہ سمیت ممنوعہ جماعت اسلامی سے نظریاتی ہم نوائی رکھنے والے بعض اصحاب نے الیکشن کے میدان میں کودنے کا رخت ِسفر باندھ لیا۔ انڈیا بلاک میں شامل کانگریس اور نیشنل کا نفرنس نے بھی آپس میں صلاح مشورہ کرکے بہت جلد نشستوں کی تقسیم کا فارمولہ وضع کر ڈالااور ایک بڑے انتخابی اتحاد کو معرضِ وجود میں لا کھڑاکیا ۔اس اتحاد کے بارے میں اکثرلوگ پُر امید ہیں کہ آئندہ یوٹی حکومت کی زمامِ کار اسی پری پول الائنس کے ہاتھ ہوگی ۔ پی ڈی پی نے بھی انڈیا بلاک کے ساتھ پارٹی منشور تسلیم کرنے کی شرط پر الیکشن اتحاد میں شامل ہونے کی پیش کش کی مگراس آفر کو شرفِ قبولیت نہ ملی۔ اسی دوران ہواؤں کا بدلتا رُخ دیکھنے والے پلٹوراموں نے الل ٹپ جموں کشمیر میں’’ پلٹ کر جھپٹنے کی‘‘ دیرینہ پٹ کتھا بہت ہی دلچسپ اور منفرد اندازمیں لکھنی شروع کی ۔ کسی نے فوراً کانگریس کے ہاتھ کا ساتھ چھوڑکر نیشنل کانفرنس کا ہل تھاما‘ کسی نے این سی کا پرچم ترک کر کے کانگریس سے ناطہ جوڑا‘ کوئی اپنی پارٹی سے قسمیں وعدے توڑکرپیپلز ڈیموکریٹک پارٹی( پی ڈی پی) کا چہیتا بنا ‘ بعضوں نے اپنی پارٹی سے راہ ورسم بنا لی ‘ کسی نے محبوبہ مفتی سے اپنی راہیں جدا کیں اور کوئی غلام نبی آزاد کی پروگریسو آزدا ڈیموکریٹک پارٹی سے پنڈ چھڑا کر اپنی من پسند جماعت کا ہولیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ سیاسی اُچھل کود کی یہ سرگزشت
’’ ضرورت ایجاد کی ماں‘‘ کی مجبوری کے تحت بننی ہی بننی تھی تو بے جانہ ہوگا۔ سیاسی اتھل پتھل کی اس ہوڑ میں یا دَل بدلی اور جماعتی وفاداریاں تبدیل کر نے کی لہر میں اب تلک زیادہ نقصان اپنی پارٹی اور پی ڈی پی کا ہوا ہے۔ بایں ہمہ غور طلب ہے کہ وادی ٔ کشمیر میںسیاسی راہیں بدلنے یا تحویلِ قبلہ کر نے والوں میں سے کسی ایک نے بھی تادم ِ تحریر بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب کوچ نہ کیا بلکہ زیادہ سے زیادہ موقع شناس سیاسی قائدین اور کارکنوں نے پردیش انڈین نیشنل کانگریس کے علاوہ یہاں کی دیگر علاقائی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرلی۔ تہاڑ جیل میں محبوس ممبر لوک سبھا انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی کے پرچم تلے بھی کئی ایک لوگوں نے سیاسی پناہ لی۔
ماضی ٔ بعید میں سیاسی پناہ گزینی کی اس عجیب وغریب داستان کی جنم داتا کانگریس رہی ہے اور آج تک اس کا اعادہ پورے ملک میں اکثر وبیش تر انتخابات کے وقت ہوتا دیکھا جاتا ہے ۔ دیکھا یہ بھی جاتا ہے کہ موقع پرستانہ سیاست کے آزمودہ مہرے ہمیشہ الیکشن سے قبل ہی پہلی فرصت میں اپنے نفع اور خسارے کا آڈٹ کر کے اپنا سمت ِ سفر طے کر تے ہیں۔ اگر اُنہیں اپنی جماعت کی نیا پار ہونے کا امکان روشن دکھائی پڑے تو پارٹی کے ساتھ دوسروں سے بڑھ کر اپنی جان نثاری اور وفا شعاری کی نمائش کر کے اپنے قائد پر دکھاوے کی محبتوں کے ڈونگرے برساتے ہیں تاکہ با س کی گُڈ بکس میں رہیں اور بدلے میں ہائی کمانڈ کے آسمان سے منڈیٹ کا ہُن من وسلویٰ کی شکل میں اُن پر برس۔ اب جونہی سیلف آڈٹ کرتے ہوئے انہیںہوائیں بتادیں کہ تمہاری پارٹی کا سیاسی سفینہ سمندر میںہچکولے کھائےجا رہاہے اور یہ ساحلِ مراد سے ہمکنار نہیں ہوگا‘ تو جس طرح ڈوبتے جہاز کو دیکھ کر سب سے پہلے تمام چوہے بلا کسی تامل کے اپنی جان بچانے کی خاطر جہاز سے چھلانگ مار کر سمندر میں کودتے ہیں ‘اسی طرح موسمی سیاست کے عادی لوگ اپنی جماعت سے آنکھیں
پھیر نے میں کوئی دیر نہیں کرتے۔ ایساکرتے ہوئےاُن کے واسطے پالا بدلنے میں اپنے سیاسی باس سے وفاداری بشرط ِ استواری ‘ سیاسی نظریات سے کمیٹمنٹ‘ پارٹی کے اہداف سے ہم آہنگی ‘جماعتی منشور سے دلچسپی جیسی چیزیں سب کی سب یکایک فضولیات کی نصاب میں شامل بھولے ہوئےاسباق ہو جاتے ہیں کیونکہ اُن کی چاہتوں کا مرکز اور دلچسپیوں کا محور ہمیشہ صرف اپنے ذاتی مفادات اور نجی اغراض تک محدود ہوتے ہیں ۔
اس بار یہ تماشہ جموں کشمیر میں اوربھی خوب ہو ا۔ کئی ایک ’’سیانے‘‘ لوگوں نے الیکشن کا نقارہ بجتے ہی اپنی پارٹیاں میلی قمیض کی مانندبدل دیں اوراُن کے بول بچن راتوں رات بدل گئے ۔ اگر الیکشن کا اعلان ہونے سے قبل وہ اپنی پارٹیاں چھوڑ جاتےیا اُن کا اقدام کسی نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر ہوتا تو تاریخ اُن کو فل مارکس دے کر پذیرائی کرتی‘ داد ِ تحسین دیتی لیکن میری دانست میں ایسی کوئی بات اکثر دل بدلوؤں کے یہاں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ دراصل کسی کو اپنی جماعت کی ممکنہ ہارنے پہلے ہی چاروں شانے چت کیا‘ کسی کو منڈیٹ کی فکر نے آگھیرا علی ہذا القیاس۔ اس سے یہی اَزبر ہوتا ہےکہ بار بار وفاداریاں بدل دینے والوں کے لئے لوگوں سے کئے گئے اپنےوعدوں کے پشارے اور دعوؤں کے ٹوکرے سےکوئی لینا دینا نہیں ہوتا‘ اُن کی سیاست کا مچلتا دل ہوتا ہےنہ کوئی لگا بندھا دماغ‘ یہ ایسے ہرجائی ہردیگ کے چمچے ہوتے ہیں جن کوہر پھول سے رَس چوسنے کی عادت لگی رہتی ہے‘ ان کا پیٹ صرف کرسی کرسی صرف کرسی کی سیاست سے بھرتا ہے ۔اُنہیں کاہے کوسیاسی اخلاقیات کا کوئی پاس ولحاظ رہے ؟ انہیں یہ چٹی کیوںپڑنے لگے کہ ذرا دیکھیں بھالیں کہ کون کس منزل کا راہی ہے؟ کس لیڈراور جماعت کے اندر سنجیدگی ‘ خلوص اور بے لوث خدمت کا جذبہ موجودہے؟ یہ لوگ وہی سیاست کرتے ہیں جس کی ایک مختصر تعریف و تشریح لینن نے پاجامے کو اخلاقیات پر فوقیت دے کر کہہ دی ہے ۔
میری ان معروضات کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ اپنی آبائی جماعت کو چھوڑکر کسی دوسری پارٹی کادامن تھامنےوالوں کی دل شکنی ہو‘ تحقیر یا تضحیک ہو‘ شکوک وشبہات پیداہوں ۔ نہیں واللہ نہیں ‘ مگر میں جانتاہوں کہ دَل بدلی سے اُن کا بھلا ہوتو ہو مگر عام لوگوں کی رَگ وپَے میں تمام سیاست دانوں کے بارے میں بدظنی اور بے اعتباری کا منفی رویہ پیدا ہونا فطری امر ہے۔ پھر تو لوگ سیاست کو محض ایک ڈھکوسلہ ‘ تضیعٔ اوقات‘ بے یقینی اور وشواس گھات کے مجموعے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ سب سے بڑھ یہ کہ اپنے سیاسی معاملات میں ذوق وشوق سے شریک وسہیم ہونے کی بجائے لوگوں کو دَل بدلیوں سے حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔ وہ کاہے کو ووٹ کی مقصدیت اور اس کے تقدس پر بھی کوئی مثبت رائے قائم کریں گے ۔ دَ ل بدلی کے ان بدترین نقصانات پر طالع آزما سیاست کاروں کی نظریں کیوں نہیں جاتیں؟
جموںکشمیر کے عوام دل سے چاہتے ہیں کہ سنہ نوے سے جو گہرے زخم مسلسل اُن کے دل وجگر کو مختلف عنوانات سے لگتے رہے ہیں ‘ وہ اب آزادنہ ومنصفانہ الیکشن کی وساطت سے مندمل ہوں۔ اس حوالے سے تمام سیاست دانوں کا زخم خوردہ لوگوں کے لئے مسیحاثابت ہونا کامیاب سیاست کی پہلی ضرورت ہے ۔ خدارا اس وقت تمام سیاست دان عوام کے دُکھوں اور غموں کا مداوا بننا سیکھیں‘ اُن کی تمام تر دلچسپی لوگوںکی مرہم کاری پر مرکوز ہو ‘ وہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنے سیاسی منشوروں کی تکمیل پر کمر بستہ ہوں۔ ہم میں سے کسی کو بھی اس امر میں کوئی شک وشبہ میں نہیں ہونا چاہیے کہ جموں کشمیر کو
ا س وقت کاروبارِ حکومت چلانے والے حکمرانوں سے زیادہ وہ قائد ِبے بدل چاہیے جو تمام لوگوں کا بلا کسی تفریق وتمیز کے ہمدرد وغم گسار ہو‘ چاہے اُس قائد کا ذاتی تعلق کسی بھی دین دھرم یا صوبے سےہو ‘ مگر ہووہ ا س قابل کہ یہاں کے معاشی مسائل‘ سماجی عدم مساوات‘ تعلیمی بدنظمی‘ اخلاقی بحران اور اُن تمامی مصائب وآلام سے لوگوں کو اپنی بے تکان محنت اور ثمر بار رہنمائی سے نجات دلائے کہ لوگ خود کو سیاسی یتیم نہ سمجھیں اور وشال دیش کا حقیقی تاج ہونے کاثبوت دیں۔ عوام کے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے یوٹی کو متحدالفکر سیاسی قیادت اور استقامت و یک سوئی والے حکمران کی اشد ضرورت ہے نہ کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے سیاست کاروں کے ایک بے ہنگم ہجوم کی۔