تحریر:جہاں زیب بٹ
اٹھارہ ستمبر کو پہلے مرحلے کی جو ووٹنگ ہو رہی ہے اس میں سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار راے دہندگان کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے؟جب امیدوار الیکشن جیت جاتا ہے تو وہ انجن بن جا تا ہے اور ووٹر میگڈ م اورتارکول مگر میرے کو ایک ویڑیو نظروں سے گزری جس میں امیدوار ایک بوڑھی ماں سے کہہ رہا ہے کہ وہ اس کے پیر کی چپل ہے وہ اسے ووٹ دے۔اہم کشمیر نشین جماعتوں این سی اور پی ڈی پی نے بڑے بڑے الیکشن منشور جاری تو کردیے ہیں مگر وہ ووٹروں کے لیے زیادہ پرکشش ثابت نہیں ہو رہے ہیں ۔آج امیدوار کا چہرہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ سیاسی جماعتیں پریشان ہیں کہ جنوبی کشمیر میں ان کا انتخابی بیڑہ پار ہو نے کی
کا رگر صورت کیا ہے؟ موثر نسخۂ کو نسا ہے ؟کامیاب تدبیر کیا ہے؟منشور سے ووٹر متاثر نہیں ہو تے۔ لہزا سیاسی جماعتیں جذباتی کارڈ کھیل رہی ہیں عوامی نفسیات کو دیکھ رہی ہیں دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کررہی ہیں اس امید میں،اس تاک میں کہ انھیں کہیں سے اور کسی طرح ہمدردی کا ووٹ مل جایے ۔
جنوبی کشمیر میں سیاسی جماعتوں اور آزاد
امیدوار وں نے جو الیکشن سٹال لگا یے ہیں ان میں تین چیزوں کو بیچنے اور ان پر ووٹ حا صل کرنے کا کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے۔یہ تین چیزیں بھا جپا,کالعدم جماعت اسلامی اور سر جا ن برکا تی ہیں۔بھا جپا کو دشمن کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے جبکہ جماعت اسلامی کا دفاع کیا جا رہا ہے وکالت کی جا رہی ہے،پابندی ہٹانے کا مطالبہ اور وعدہ کیا جا رہا ہے۔۲ جب یہ خبر پھیل گیی کہ جیل میں بند سر جا ن
برکا تی زینہ پورہ حلقہ انتخاب سے قسمت آزما یی کرنے جا رہے ہیں۔تو سیاسی قسمت آزمائوں پربجلی برسی مگر جب ساتھ ہی کاغذات نامزدگی مسترد ہو نے کی خبر نکل کرآیی توجذباتی کھیل کو د میں ایک نادر چیز در آیی
سرجان برکا تی کی الیکشن میں شمولیت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح کیا پھیلی کہ شوپیان سے کلگام تک ذلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گیے ۔کم از کم زینہ پورہ نشست کے نامزد امیدواروں کی راتوں کی نیند اڑگیی۔ انہیں انجینیر رشید کی طرح برکاتی کے حق میں جذباتی لہر پیدا ہو نے کے آثار نظر آیے اور وہ اپنی جیت کے حوالے سے شدید فکر وتشویش میں مبتلا
ہو گیے۔لیکن سرجان بارکاتی کے کاغذات نامذمزدگی مسترد ہو نے کے بعد سیاسی جماعتیں ہمدردی ووٹ کے لیے برکاتی کا نام چناؤ مہم میں گھسیٹ رہی ہیں ۔جو حضرات کل تک برکاتی سے اجنبی بنے ہویے تھے وہی آج اس کے گھر کا طواف کرتے ہیں،اسکی خیر خواہی کا دم بھرتے ہیں اور اسکے ساتھ اظہار یکجھتی کرتے ہیں ۔اس ریاکاری کے پیچھے حقیر سیاسی مفاد کا ر فرما ہے۔امیدواروں کی نظر برکاتی کے اثر ورسوخ پرہے،اسکے ساتھ عوام کےجذباتی لگاؤپر ہے جس کو وہ اپنے حق میں کیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
برکاتی اور انکی اہلیہ غیر قانونی فنڈنگ کے معاملے میں جیل کاٹ رہے ہیں۔وہ 2016 کی شورش میں “آذادی چاچا” کے نام سے مشہور ہویے جب انہوں نے جذبات کی رو میں بہہ کر انوکھی نعرہ بازی دریافت کی ۔ اسکے صلے میں ان کو جو طویل نظر بندی کا سامنا ہے اس سے وہ دل برداشتہ ہو گیے اور اب مین سٹریم کو رحمت سمجھ کر ہی انہوں نے الیکشن میں کودنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم سرکاری ذرایع کے مطابق وہ جیل سپرانٹیڈ نٹ کے دستخط کے تحت حلف نامہ پیش نہ کرسکے ۔لہذا نامزد گی مسترد ہو گیی ۔اس کے اہل خانہ اور ہمدرد شک کی انگلی این سی کی طرف اٹھاتے ہیں ۔لہذا دیگر جماعتیں اور نامزد امیدوار انگلی کاٹ کر شہیدوں میں شمار رہنے کابہترین موقعہ پارہے ہیں ۔
اپنی پارٹی کے قائد الطاف بخار ی نے جب سنا کہ برکاتی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو یے تو انھوں نے کہا کویی بات نہیں ۔برکاتی شوپیان کے لیڑر تھوڑی ہیں ۔وہ آکر سرینگر میں الیکشن لڑے اور وہاں ہم اپنا امیدوار کھڑا نہیں کریں گے۔زینہ پورہ سے پی ڈی پی کے نامزد امیدوار غلام محی الدین وانی نے صورتحال کا موازنہ سنہ ستاسی سے کیااور برکاتی کا دفاع کرتے ہویے کہا کہ ان کے کا غذات نامزدگی کو مسترد نہیں کیا جا نا چاہیے تھا۔آذاد امیدوار شبیر کلے اس احتجاج میں شامل ہویے جو برکاتی کی بیٹی صغریٰ برکاتی وغیرہ نے کاغذات مسترد کیے جانے کی کاروائی کے خلاف ڈی سی آفس شوپیان کے سامنے کیا ۔کلے نے دعویٰ کیا کہ نامزدگی کاغذات روایتی جماعتوں کی ایما پر مسترد کیے گیے۔باور کیا جارہا ہے کہ برکاتی کے ہمدرد ووٹ کھاتے کا
سب سے زیا دہ فایدہ اگر کسی کو ملے گا تو وہ اعجاذ میر ہیں جنھیں اس بار پی ڈی پی نے پارٹی منڈیٹ دینے سے انکار کیا۔اعجاز میر نے بہ نفس نفیس اس احتجاجی ریلی میں حصہ لیا جو صغری برکاتی نے کاغذات نامزدگی مسترد ہو نے کے بعد نکالی ۔وہ چناوی جلسوں میں برکاتی کا دفاع کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر برکاتی کو الیکشن لڑنے دیا جاتا تو وہ اس کے حق میں دستبردار ہوجا تے۔
جنوبی کشمیر کی چناوی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کا بھا جپا سے ڈرانا اور جماعت یا برکاتی کا دفاع کرنا اس حقیقت کا غماز ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنا کچھ انتخابی جمع پونجی نہیں رکھتیں ۔ان کی نظر جذباتی اور ہمدردی ووٹ پر ہے۔