تحریر:معراج زرگر
سیاست کی نیم فلسفیانہ تعریف میں عام طور پر معاشرتی تنظیم، حکمرانی، اور طاقت کے استعمال کا مطالعہ شامل ہوتا ہے۔ فلسفے میں سیاست کو انسانی برادریوں کے اندر نظم و نسق اور فیصلہ سازی کے اصولوں کی جانچ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔جن کی کچھ بنیادی جہتیں طاقت اور اختیار ہیں کہ کس طرح طاقت تقسیم ہوتی ہے اور کس طرح حکومتی اور غیر حکومتی ادارے اس اختیار کو استعمال کرتے ہیں۔ دوسری جہت انصاف اور اخلاقیات ہیں کہ سیاست میں انصاف کی تعریف، اور مختلف اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر حکمرانی کے طریقے جانچنے کا عمل کیا ہوگا۔ تیسری جہت آزادی اور حقوق کی جہت ہے اور اس جہت کو لیکر افراد کے حقوق اور ان کی آزادی کا تحفظ کیسے کیا جائے۔ ایک اور جہت حکومتی نظام ہے، یعنی مختلف حکومتی نظاموں، جیسے جمہوریت، بادشاہت، آمریت وغیرہ، کے اصولوں اور ان کے عملی نتائج کا مطالعہ کس طرح اور کیسے ہو۔ اور آخری جہت عوامی پالیسی کی تشکیل اور اس کے نتائج کا تجزیہ بھی سیاست کے نیم فلسفیانہ مطالعے کا حصہ ہوتا ہے۔
فلسفیانہ یا نیم فلسفیانہ نقطہ نظر سے، سیاست انسانی برادری کے اندر منظم تعاون اور تنازعے کے مطالعے کا میدان ہے، جس میں معاشرتی نظم و نسق، حکومتی ڈھانچے، اور افراد کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔برصغیر کا سیاسی نظام پولیٹیکل سائنس کے ماہرین اور تشنہ گان کو ایک عظیم اور ہمہ وقتی مضمون فراہم کرتا ہے تاکہ اس پر بحث کی جائے اور وسیع انسانی مفاد کی سبیلیں فراہم کی جاسکیں۔ البتہ برصغیر کے جدید سیاسی نظام کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ جن میں کرپشن، فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی، سیاسی عدم استحکام، معاشی عدم مساوات، تعلیمی نظام کی بہتری،ماحولیاتی چیلنج،جمہوری اداروں کی مضبوطی اور عدلیہ کی خودمختاری،انفارمیشن ٹیکنالوجی اورسوشل میڈیا کا غلط استعمال،نسلی اور لسانی مسائل اور بیرونی مداخلت سب سے بڑے چیلینجز ہیں۔
چونکہ اس وقت میرا یہ موضوع بالکل نہیں ہے، لیکن تمہیدی طور سیاست کے اصل مقاصد کو سمجھنے کے لئے معمولی بات کی گئی۔ اصل موضوع جموں و کشمیر کے ایک انتخابی حلقے یا ایک چھوٹے سے مگر اہم علاقے میں کچھ سیاسی پہلئوں پر بات کرنا ہے۔ اگرچہ میں پولیٹیکل سائنس کا طالب علم نہیں ہوں لیکن اپنے علاقے کی سیاست پر ایک چھوٹی موٹی مگر ایک طالب علمانہ نگاہ ہے۔
علاقہ ترال ریاست جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی 31 ویں نشت ہے جب کہ حال کی حد بندی میں اسے سری نگر کی پارلیمانی نشت کا حصہ بنایا گیا۔ اس سے پہلے یہ اننت ناگ پارلیمانی حلقے کا ایگ حصہ ہوا کرتا تھا۔ 1962میں مرحوم عبد الغنی ترالی اس نشت سے ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے لئے جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ اس کے بعد لگاتار 1976 اور 1972 میں مرحوم علی محمد نایک نے بطور آزاد امیدوار اس نشت پر کامیابی حاصل کی۔ 1977 میں مرحوم محمد سبحان بٹ نے نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر، 1983 میں ایک مرتبہ پھر مرحوم علی محمد نایک نے بطور اۤزاد امیدوار، 1987 میں کانگریس کی ٹکٹ پر جناب غلام نبی نایک، 1996 میں نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر مرحوم علی محمد نایک، 2002 میں نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر مرحوم محمد سبحان بٹ کے فرزند ڈاکٹر غلام نبی بٹ، اور پھر 2008 اور 2014 میں لگاتار پی۔ڈی۔پی۔ کی ٹکٹ پر جناب مشتاق احمد شاہ نے ترال کی نشت پر کامیابیاں حاصل کیں۔
62 سال پر پھیلے ہوئے اس لمبے سیاسی دورانیے کا ایک اچھا خاصا وقت یعنی لگ بھگ 35 سال نامساعد حالات کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اور اس دوران اگرچہ سیاسی نمائیندے منتخب ہوتے رہے مگر ان کی کارگذاری بس خانہ پری کی حد تک ہی رہی۔ چونکہ اس علاقے میں کلاسیکل سیاست یا خالص سیاست کے ماہرین یا نمائندے مشکل سے ہی کوئی نظر اۤئیں گے، لیکن کچھ گنے چنے سیاسی ماہرین اور مبصرین علاقہ ترال کی سیاست پر ایک خوش کن کلام کرسکتے ہیں۔ پچھلی ایک دو دہائیوں میں مگر نوجوانوں کی ایک خاص تعداد علمی اور عملی سیاست کے مقاصد اور اسکے مفاہیم پر اچھی خاصی ڈیبیٹ یا بحث کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چونکہ ہماری پوری ریاست میں بالعموم اور اس علاقے میں بالخصوص سیاست پر بات کرنے اور اس پر سیر حاصل بحث کرنے کو ناپسندیدہ، غیر ضروری، یا لاحاصل سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن سیاسی منظر نامے کے بدلتے ہوئے افق کو مد نظر رکھتے ہوئے نوجوانوں کی سیاست میں دلچسپی ایک خوش اۤئند قدم ہے۔
چونکہ روایتی سیاست ہر جگہ ہوتی رہی ہے اور کامیاب بھی ہوتی رہی، اس طور سیاست دان بھی اس کی پناہ لیتے رہے اور ہر وقت منتخب ہوکر وہی اکا دکا چیزوں میں عوام کو مصروف رکھنا سیاست کہلایا گیا۔ جو کہ اصل سیاست نہیں ہوتی۔ ہاں۔۔۔عوام کی ایک چھوٹی موٹی جماعت کے نمائیندہ کہلائے جاسکتے ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ایک عام ووٹر ملکی اور ریاستی سطح پر سیاسی طور بڑا میچور ہوچکا ہے اور روائتی اور استحصالی سیاست سے تنگ بھی آچکا ہے۔
علاقہ ترال سے جتنے بھی نمائیندے مختلف ادوارمیں منتخب ہوکر قانون ساز اسمبلی کے لئے چنے گئے، ان کے متعلق سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ روائتی سیاست کے علمبردار تھے۔ ایک ایسی سیاست جہاں اپنے حریف کی مخالفت، ایک منفی سیاسی تحریک چلانا، ان پڑھ اور غریب ووٹر کو نوکری، بنیادی سہولیات وغیرہ کے وعدے کرکے ووٹ حاصل کرنا، اور پھر منتخب ہوکر اکا دکا اور چھوٹے موٹے عوامی کام کرنا، اسمبلی فنڈس میں سے کہیں کوئی ٹرانسفارمرلگوانا یا سڑک بنوانا یا اپنے ان پڑھ کارکنان, رشتہ داران یا اقارب وغیرہ کو نوکریاں فراہم کرانا شامل ہے۔ اس طرح کی سیاست سے ایک غیراخلاقی اورغیر معاشرتی نظام وجود میں اۤتا ہے جہاں ایک فرد دوسرے فرد سے، ایک خاندان دوسرے خاندان سے، ایک محلہ دوسرے محلے سے، ایک گائوں دوسرے گائوں سے نفرت کرنے لگتا ہے اور ہمیشہ ایک غیر انسانی اور غیر اخلاقی ماحول پنپتا رہتا ہے۔ جہاں میرٹ اور انصاف کا ستیاناس ہوتا ہے۔ جو کہ سیاست کی اچھی تعبیر نہیں ہو سکتی۔
علاقہ ترال کی یہ بدنصیبی رہی ہے کہ ملکی یا ریاستی سطح پر اسے سیاسی میدان میں وہ اہمیت اور مقام نہیں ملا جو کہ ایک پڑھے لکھے اور قدرے باشعور علاقے کو ملنا چاہیے تھا۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے مرحوم علی محمد نایک صاحب کا محاذ رائے شماری میں شاید کوئی رول رہا ہو, اور ان کے وزیر مال ,وزیر تعلیم اور مابعد پارلیمنٹ ممبر رہنے کے دوران ان کا اثر و رسوخ قابل زکر رہا ہو, مگر ترال علاقے کی مرحوم موصوف کے سیاسی قد کے برابر نہ کوئی اہمیت ملی اور نہ ہی کوئی اتنی زیادہ ترقی, جس کا کوئی بڑا حوالہ دیا جاسکے۔ اسی طرح دیگر سیاست دانوں کی کارگذاری اور علاقے کے تئیں ان کی قلیل خدمات کا زکر بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
کس قدر مایوس کن بات ہے کہ علاقہ ترال میں پچھلے تقریباََ ایک دہائی کے دوران جس قدر بھی ترقی ہوئی اس میں ہمارے عوامی نمایندوں کا کوئی رول نہیں۔ اور ان کے ادوار میں اس سطح کا کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ ایسے کئی شعبہ جات اور معاملات ہیں جن کے بارے میں سوچ کر دم گھٹتا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اور اس ضمن میں ہمارے عوامی نمائندوں کو بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ کیا معلوم وہ یہ کام کرنے کے اہل نہ تھے یا ان میں سیاسی بصیرت نہیں تھی جس کے بل بوتے پر وہ وقت کے اعلی ایوانوں میں گرج اور برس سکتے اور اپنے علاقے کے لئے بہتر کام کراسکتے۔
سب سے بڑا مسئلہ صحت کا شعبہ ہے۔ ایک برائے نام سب ڈسٹرکٹ ہسپتال ڈیڑھ لاکھ کی آبادی کے لئے کاغذوں پر موجود ہے۔ آج سے ٹھیک 36 سال یعنی 1988 میں سی۔ایچ۔۔سی۔ ترال کو ایس۔ڈی۔ایچ۔ ترال کا درجہ دیا گیا۔ جبکہ پانپور اور راجپورہ کو کئی سال بعد ایس۔ڈی۔ایچ ملے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سب ڈسٹرکٹ ہسپتال میں کل طبی اور نیم طبی عملے کی تعداد 166 ہونی چاہیے۔ جس میں سے منظور شدہ ڈاکٹروں کی تعداد 36، نرس/نیم طبی عملے کی تعداد 90، ایڈمینیسٹریٹیو اسٹاف کے لئے 14، بلڈ بنک/بلڈ اسٹوریج یونٹ کے لئے8، اور دیگر عملہ 5 ہونا چاہیے۔ اور چند سال پہلے ایک حاصل شدہ رپورٹ کے مطابق 166 طبی اور نیم طبی عملے کی تعداد صرف 70 کے قریب تھی۔ جب کہ تقریبا 100 کے قریب پوسٹس خالی ہیں۔ یہاں پرطوالت کی وجہ سے تفاصیل دیننے سے گریز کیا جارہا ہے۔
جموں و کشمیر واٹررسورسزریگولیشن اینڈ منیجمنٹ ایکٹ کے تحت جہلم اور اسکی شاخوں کے کنارے ایک سو میٹر تک کسی بھی تعمیر کی اجازت نہیں، اور یہاں علاقہ ترال میں سیاسی بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے ایک مشہور نالے کے کنارے ہسپتال کی تعمیر کرائی گئی، اس بات کو دھیان میں نہ رکھتے ہوئے کہ کبھی بھی ایک بڑا سا سیلابی ریلہ املاک اور انسانی جانوں کے لئے خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہسپتال کے مضر ترین فضلہ کے اخراج سے نالے کا پانی بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔
پچھلے کئی سالوں سے جتنے بھی ہیلتھ اینڈ ویلنیس سینٹرس بنائے گئے، ان میں ہمارے سیاسی نمائیندون کا کوئی رول نہیں۔ سڑکوں کی کشادگی اور میکڈم بچھانے کا کام کیا گیا، وہ پہلے پہل عدالت عالیہ میں ایک پبلک انٹرسٹ لٹیگیشن کے زریعے سے بنائے گئے اور بعد میں انتظامیہ کی کاوشوں سے بنائی گئی۔ ہر پنچایت حلقہ میں کھیل کے میدان اور ترال میں خاص کر بجونی اسٹیڈیم اور انڈور اسٹیڈیم میں بھی سیاسی نمائیندوں کا کوئی ہاتھ نہیں۔
ترال علاقے میں فعال اور متحرک سیاسی نمائیندگی کے معدوم ہونے کی وجہ سے انتہائی اہمیت کے حامل کئی ایک بڑے پراجیکٹ ترال سے اونتی پورہ اور دوسری جگہوں پر منتقل کئے گئے اور یہاں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ بورڈ اۤف اسکول ایجوکیشن کا سب اۤفس پانپور کے حوالے کیا گیا۔ اور ہم سوئے رہے۔ جنگلات ترال کے ہیں اور ڈویژنل فاریسٹ اۤفس اونتی پورہ چلا گیا۔ اسی طرح جل شکتی، پاور ڈیولپمنٹ اور دیگر ڈویژنل دفاتر اونتی پورہ میں کام کر رہے ہیں، اور ترال علاقہ وہیں کا وہیں پڑا ہے۔ چھوٹے چھوٹے علاقوں میں انڈسٹریل ایسٹیٹ قائم کئے گئے، اور ترال میں دو تین سال قبل ایک سو کنال اراضی انڈسٹری ڈپارٹمنٹ کے لئے الاٹ کئے گئے لیکن عوامی نمائیندگی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک منی سیکریٹیریٹ کی عمارت چھہ سال “ہیر ترال اور بونہ ترال” کی سیاسی نفرتوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ایک زنانہ کالج ڈگری کالج ترال اتھارٹیز اور کچھ لوگوں کی انتھک محنت سے سینکشن تو ہوا، مگر اس میں بھی بڑا کھیل کھیلا گیا اورمنظوری کے بعد بھی زنانہ کالج نہ بن سکا۔
ترال میں ایک شاندار پراجیکٹ اۤل انڈیا انسٹی چیوٹ اۤف میڈیکل سائینسزکے لئے اراضی کی نشاندہی کی گئی، ایک پراجیکٹ حکام بالا کو پیش کیا گیا۔ مگر سیاسی نمائیندگی اوریک جہتی نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی اونتی پورہ چلا گیا۔ جب کہ ضلع پلوامہ میں ترال کے بغیر 1800 کنال درکار سرکاری اراضی کہیں پر نہیں تھی۔ ایک پولٹری ایسٹیٹ کے لئے اراضی کی نشاندہی کی گئی اور مرکزی سرکار قریب تھا کہ ریاست کا پہلا پولٹری ایسٹیٹ ترال میں بناتی لیکن پھر وہی سیاسی نمائیندگی اور بصیرت کا فقدان اۤڑے اۤیا۔ ترال میں بڑھتی ہوئی اۤبادی اور کم ہوتی ہوئی سرکاری زمین کے، خود کو سیاست دان کہلانے والے فرد یا پارٹی کے پاس کوئی روڑ میپ یا بلیو پرنٹ موجود نہیں۔ ترال وہ واحد علاقہ ہے جہاں نہ کوئی پبلک پارک ہے، نہ مین ٹائون میں ٹوائلٹ بلاک یا کوئی ٹائون پلان ہے۔ چلڈرن پارک، میریج ہال وغیرہ ان بن رہا ہے۔ اگلے دس سال میں ٹریفک، صحت عامہ، پبلک یوٹیلٹی، کھیل، انڈسٹری، ٹورازم، پبلک سیکٹر، تعلیم، روزگار، نوجوانوں کی مختلف سرگرمیوں میں شمولیت، تجارت، فنون، لوکل ہینڈی کرافٹ، اۤبی ذخائر کی نگہداشت، جنگلات کا تحفظ، سرکاری شعبہ جات کی لوکل سطح پرکارکردگی وغیرہ وغیرہ کی کسی بھی نام نہاد سیاسی پارٹی یا نام نہاد سیاسی فرد کے پاس کوئی پالیسی یا میکانزم نہیں ہے۔
جس کو بھی دیکھئے سب مینڈیٹ کی تلاش میں ہیں اور وہی گھسی پٹی اور دقیانوسی سیاست کا بگل بجا رہے ہیں اور وہی کورپٹ اور دیمک ذدہ سیاسی نظام کی غلامی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ کسی بھی فرد واحد کے پاس دور جدید کے مسائل اور ان کے حل کے لئے نہ ہی ایک دردمندانہ دل ہے اور نہ ہی وہ کوالیفیکیشن، جس کے بل بوتے پر وہ ترال علاقے کی نمائندگی کرسکتا ہے۔ اور نہ ہی کسی نام نہاد سیاسی پارٹی کے پاس ترال کے لئے کوئی روڑ میپ ہے۔ ترال کا ووٹر ایک الگ قسم کا ووٹر ہے۔ ایک غیرت مند اور پڑھا لکھا ووٹر۔ یہاں کا نوجوان بڑا ذہین اور فکر رکھنے والا ووٹر ہے۔
ترال میں اگلے ہونے والے اسمبلی چنائو میں اترنے کے لئے کم از کم ایک ڈائنامک پڑھے لکھے اور سیاسی بصیرت رکھنے والے شخص کی ضرورت ہے تاکہ کئی دہائیوں پر پھیلے ہوئے ایک سیاسی اندھیرے کو دور کیا جاکر ایک تاذہ مشعل جلائی جا سکے۔ ایسا نہ ہوکہ پھر سے ایک پڑی لکھی اۤبادی کا استحصال ہو اورسڑک، بجلی، پانی، ٹرانسفارمر، اۤنگن واڑی سینٹر جیسے کاموں میں ترال کے ووٹر کو ٹرخایا جائے۔ بہتر یہ تھا کہ ترال کے سب سنجیدہ اور سیاست میں دلچسپی رکھنے والے لوگ پارٹی اور اپنی انفرادی حیثیت کو بالائے طاق رکھ کر ایک ہوجاتے اور پھر ایک سمجھوتے کے تحت کسی بھی بہترین امیدوار کو اۤگے کرتے اور باقی سارے سیکنڈ لائن میں رہ کر اس کے دست و بازو بن جاتے اور علاقہ ترال کو صحیح سمت میں جدید تقاضوں پرایک مثالی علاقہ بنانے میں اپنا تعاون پیش کرتے۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ ترال کی عوام کے ساتھ ڈرامے بازی بند کریں اور الیکشن سے پہلے ترال کے لوگوں کے سامنے ترال کے لئے ایک خاص منشور سامنے رکھیں اور اس منشور پر عمل در اۤمد کی یقین دہانی کرائیں۔ جو چالاکی پر مبنی سیاسی ڈھونگ نہ ہو، بلکہ خلوص اور اعتماد کا ایک ڈاکومنٹ ہو۔