سرینگر: جموں و کشمیر میں گزشتہ ماہ (یعنی اکتوبر) کے دوران عسکریت پسندی سے متعلق تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اکتوبر 2024میں 18 افراد ہلاک ہو گئے؛ ان میں 10 شہری، 2 سکیورٹی اہلکار اور 6 عسکریت پسند شامل ہیں۔ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق، اکتوبر ماہ میں ریاست میں سات بڑے عسکری واقعات پیش آئے جس کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عسکریت پسند گروہوں نے حالیہ اسمبلی انتخابات کے کامیاب انعقاد کے بعد امن و امان کو خراب کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے کامیاب انعقاد کے بعد عسکریت پسند دوبارہ خطے میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز جدید ٹیکنالوجی اور ہیومن انٹیلی جنس کے ذریعے ان کے منصوبے ناکام بنا رہی ہے، تاہم عسکریت پسند مقامی اور غیر مقامی شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔‘‘ افسر نے مزید بتایا کہ حساس علاقوں، خاص طور پر بنیادی ڈھانچے کے (تعمیراتی) منصوبوں کے ارد گرد سکیورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔
جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات 18 ستمبر سے یکم اکتوبر تک تین مراحل میں منعقد ہوئے، جس میں وادی کشمیر میں بڑے پیمانے پر سکیورٹی اقدامات اور نمایاں ووٹر ٹرن آؤٹ دیکھنے میں آیا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد یہ پہلے اسمبلی انتخابات تھے۔
اکتوبر ماہ کے بڑے عسکرتی واقعات کی تفصیلات بتاتے ہوئے پولیس افسر نے کہا: ’’5 اکتوبر کو سکیورٹی فورسز نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب شمالی کشمیر کے ضلع کپوارہ کے گوگلدھار علاقے میں دراندازی کی ایک کوشش کو ناکام بنا دیا اور 2 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔ دراندازی کی کوششیں 19 اکتوبر کو بھی جاری رہیں اور شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے کمل کوٹ (اُوڑی) میں سکیورٹی فورسز نے ایک اور عسکریت پسند کو ہلاک کیا۔‘‘
پولیس افسر نے مزید بتایا: ’’18 اکتوبر کو جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے اشوک چوہان نامی 30 سالہ غیر مقامی شہری کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ واقعہ حالیہ حملوں میں شہریوں، خاص طور پر غیر مقامی افراد کے خلاف عسکریت پسندوں کے اہداف کو اجاگر کرتا ہے۔‘‘
اکتوبر ماہ میں عسکریت پسندی سے متعلق سب سے بڑا واقعہ 20 اکتوبر کو وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل کے زیڑ موڑ ٹنل کے قریب گگن گیر علاقے میں پیش آیا۔ افسر کے مطابق، لشکر طیبہ کے ذیلی گروپ ’’دی ریزسٹنس فرنٹ (TRF) کے عسکریت پسندوں نے ایک مقامی ڈاکٹر شاہنواز اور 6 مزدوروں کو ہلاک کر دیا۔ ہلاک شدگان میں فہیم نذیر، کلیم، محمد حنیف، ششی ابروال، انیل شکلہ اور گرمیٹ سنگھ شامل تھے جبکہ اس حملے میں پانچ افراد زخمی ہوئے۔ افسر نے کہا، ’’قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) نے اس کیس کی تفتیش سنبھال لی ہے اور مزید تحقیات جاری ہیں۔‘‘
افسر نے مزید کہا: ’’حملے جاری رہے اور 24 اکتوبر کو ضلع بارہمولہ میں ایل او سی کے قریب بُوٹا پتھری (گلمرگ) کے علاقے میں ایک فوجی گاڑی پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا، جس میں دو فوجی اور دو پورٹر ہلاک ہوئے جبکہ تین دیگر فوجی زخمی ہوئے۔ پیپلز اینٹی فاشسٹ فرنٹ (PAFF)، جو کہ جیش محمد کا ذیلی گروپ ہے، نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔28 اور 29 اکتوبر کو جموں کے خطے میں ایل او سی کے قریب اکھنور علاقے کے جنگلات میں ایک دو روزہ مقابلے کے دوران تین عسکریت پسند مارے گئے۔‘‘
پولیس افسر نے مزید بتایا کہ اکتوبر میں عسکریت پسندوں نے شمالی، وسطی اور جنوبی کشمیر کے ساتھ ساتھ جموں کے مختلف علاقوں میں حملے کیے، جن میں سے اکثر ایل او سی کے قریب تھے۔ اس کے نتیجے میں تمام سکیورٹی فورسز نے خطے میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے۔
حال ہی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران آرمی کی 10ویں انفنٹری ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (GOC) میجر جنرل سمیر سریواستو نے ایل او سی کے ارد گرد عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: ’’مشترکہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق تقریباً 50 سے 60 عسکریت پسند لانچنگ پیڈز پر موجود ہیں جو جموں میں دراندازی کے لیے تیار ہیں۔‘‘