مینڈھر،16مئی:
جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے خطہ پیرپنچال کے دورے تیسرے روز مینڈھر میں ایک فقید المثال عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کو دہرایا کہ نیشنل کانفرنس جموںوکشمیر کی پہنچان،وحدت اور انفرادیت کے ساتھ ساتھ یہاں کے نوجوانوں کے بہتر مستقبل کیلئے لڑتی رہے گی اور اُمید ظاہر کیاکہ ہمیں اس لڑائی میں ضروری کامیابی حاصل ہوگی۔
اجتماع میں پارٹی جنرل سکریٹری حاجی علی محمد ساگر، صوبائی صدر جموں ایڈوکیٹ رتن لعل گپتا، سینئر لیڈر جاوید احمد رانا، ترجمانِ اعلیٰ تنویر صادق، صوبائی یوتھ صدر اعجان جان اور ڈپٹی پولیٹکل سکریٹری مدثر شاہ میری کے علاوہ مقامی لیڈران بھی موجود تھے۔
عمر عبداللہ نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’نیشنل کانفرنس ایک جمہوری جماعت ہے، ہم جمہوریت یقین رکھتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو ہواوہ غیر قانونی اور غیر آئین تھا، ہم اس بات میں یقین نہیں رکھتے کہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھر دیکر سڑکوں پر لڑیں، ہم سڑکوں پر نہیں بلکہ عدالت میں لڑیں گے۔ اللہ کا شکر ہے کہ دیر آید درست آید سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ تسلیم کیا ہے دفعہ370کے معاملے پر سماعت شروع ہونی چاہئے۔اور ہم اُمید کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں گرمی کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی سماعت شروع ہوگی اور ہمارا ماننا ہے کہ ہمارا مؤقف مضبوط ہے اور ہمیں کامیابی نصیب ہوگی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے ادارے صحیح ہیں، ہماری نیت صاف ہے، ہم دھوکہ دینے والے لوگ نہیں ہیں، ہم سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ میں تبدیل نہیں کرتے اگر چہ اس کیلئے وفتاً فوقتاً ہمیں بھی سزا ملتی ہے ، لیکن کوئی بات نہیں وہ ہم برداشت کرلیں گے۔ لیکن جو لڑائی ہم لڑ رہے ہیں وہ صحیح اور حق پر مبنی ہے اور ہم جموںوکشمیر کے عوام کے حقوق کیلئے ہر حال میں جدوجہد کرتے رہیں گے۔‘‘
عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس مساوات میں یقین رکھتی ہے اور ہمارا ہمیشہ یہی مؤقف رہا ہے کہ گوجروں کی طرح پہاڑیوں کو بھی ایس ٹی کا درجہ دیا جائے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی دہراتے ہیں کہ اگر ایک طبقہ کیساتھ انصاف کرنا ہے تو دوسرے طبقہ کیساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہئے، پہاڑیوں کی تھالی میں ڈالنے کیلئے گوجروں کی تھالی میں چھید مت کیجئے، یہی وجہ ہے کہ جب ہم نے دیکھا کہ مرکزی حکومت پہاڑیوں کو ایس ٹی کا درجہ دینے میں لیت و لعل کی پالیسی اختیار کررہی ہے ہم نے اپنے کوٹا (ریاستی کوٹا)میں سے انہیں 4فیصد ریزرویشن کو قانون ساز اسمبلی اور قانون ساز کونسل سے پاس کرواکے گورنر کو منظوری کیلئے بھیجی تھی اور 2015میں نئی حکومت کے معرض وجود میں آنے کے بعد بس اس پر عملدآرمد کرنے باقی تھا لیکن اُس وقت نہ تو کمل والوں نے کوئی ذہمت گوارا کی اور نہ ہی قلم دوات والوں نے اس کی طرف کوئی توجہ دی۔ لیکن آج بھاجپا والے پہاڑیوں کو لبھانے کیلئے ایس ٹی کا درجہ دلانے کی باتیں کررہے ہیں، اگر بھاجپا والوں کی نیت صاف ہوتی تو 2015سے لیکر آج تک 4فیصد ریزرویشن پر ہی عملدرآمدکیا ہوتا۔انہوں نے بھاجپا سے مخاطب ہوئے ہوئے کہا کہ ’’یہاں کے لوگ غریب اور بے بس ضرور ہوسکتے ہیں لیکن اتنے بے قوف نہیں ہیں جو آپ کے جھانسوں میں آئیںگے۔
2018سے تو یہاں مکمل طور پر آپ کا (بھاجپا کا) کنٹرول ہے، یہاں کے عوام کیلئے کون سے بہتری آئی ؟ہم نے 5اگست2019 دیکھا، اُس وقت بڑی بڑی باتیں ہوئیں۔ ہمارے نوجوانون سے کہا گیا تھا کہ بس اب آپ دیکھئے کہ کتنا بدلائو آئے گا، آپ کیلئے نیا جموںوکشمیر قائم ہوگا، یہ ہل والے ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ اگر ہم رکاوٹ تھے تو آپ نے کیا کیا؟اسی لئے ہم یہ بات پوچھنے کیلئے مجبور ہوجاتے ہیں کہ 5اگست2019کو اس ریاست کو کیا فائدہ پہنچا؟بی جے پی کو اس چیز کو ملک میں بھیچ کر سیاسی فائدہ ملا ہوگا لیکن یہاں کے رہنے والوںکو اس کا کیا فائدہ ملا؟‘‘۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم تعمیر و ترقی اور امن و خوشحالی کی صورت میں وہیں ہوتے جہاں پر 5اگست 2019میں تھے ہمیں وہ بھی قبول تھا لیکن آپ نے تو ہمیں دہائیوں پیچھے دھکیل دیا۔ عمر عبداللہ نے کہاکہ گذشتہ برسوں کے دوران بھرتی عمل پر مسلسل بریک ہے۔ ہمارے دور میں آر ای ٹی، این آر ایچ ایم اور دیگر بھرتیاں ہوتی تھیں۔دور دراز پہاڑی علاقوں میں ڈی جی کو ہیلی کاپٹر میں اترواتے تھے اور وہیں ڈی جی بھرتی عمل میں لائی جاتی تھی۔نوجوانوں کی لائن لگتی تھی، کوئی اُن سے نہیں پوچھتا تھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ آپ کی ذات کیا ہے؟کیاآپ ہل کیساتھ چلتے ہو، ہاتھ کیساتھ چلتے ہویا کمل کیساتھ چلتے ہو؟فیتہ نکلتا تھا، اُمیدوار کا قد اور چھاتی برابر نکلتی تھی اور ریس میں کامیاب ہوتا تھا تو ڈی جی صاحب وہیں بھرتی کاآرڈر ہاتھ میں تھما دیتا تھا۔ آج کہاں ہے وہ سب؟
این سی نائب صدر نے کہاکہ جس تعمیر و ترقی کی باتیں کی گئی تھی وہ ترقی کہاںہے؟ پونچھ سے مینڈھر روڑ کا حال یہ ہے کہ یہاں آتے آتے ہماری ہڑیاں ہل گئیں ۔بجلی کہاںہے؟ ہمیں تو ماہ رمضان میں سحری اور افطا رکے وقت بجلی سے محروم رکھا گیا جبکہ ماضی میں ہر ایک حکومت کی یہی کوشش رہتی تھی کہ کم از کم سحری اور افطار کے وقت صارفین کو بجلی فراہم ہوسکے۔ لیکن یہاں بجلی کہیں نہیں اور میٹر لگانے میں جلدی کی جارہی ہے، وہ بھی سمارٹ میٹر، کیا سمارٹ میٹر سے بجلی آئے گی؟ جناب پہلے صارفین کو بجلی فراہم کیجئے پھر سمارٹ میٹر لگانے کی سوچئے۔ انہوں نے کہا کہ اب تو نکلوں کے میٹر بھی لگانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ نکلوں میں پانی نہیں لیکن میٹر لگانا پہلی ترجیح ہے ۔
عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ جموں وکشمیر میں جمہوریت کہیں نہیں، روزگار کہیں نہیں، ترقی کہیں نہیںاور امن و امان کہیں نہیں ۔ 5اگست 2019سے متعلق نئی دلی کے تمام دعوے سراب ثابت ہوچکے ہیں۔ آج لوگ ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ اب کشمیری باہری ریاستوں میں جانے بھی کتراتے تھے، پیرپنچال کے ہزاروں مزدور گرمیوںمیں باہری ریاستوں میں مزدوری کیلئے جاتے تھے لیکن آج لکھن پورے سے آگے جانے سے گھبراہے ہیں کہ کہیں اُن کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ہماری ہر ایک چیز پر حملے کئے جارہے ہیں۔ ہم کس طرح اپنے خدا کو یاد کرتے ہیں ،ہم کس طرح اپنے لوگوں کو مسجد میں بلاتے ہیں ان سب کاموں پر حملے کئے جارہے ہیں، ہماری بچیاں حجاب پہن کر کالج جانا پسند کرتی ہیں، یہ بات بھی ان کو کھٹکتی ہے۔جان بوجھ کر ایک سوچے سمجھے طریقے سے مذہبی ، علاقائی اور لسانی بنیادوں پر دشمنی پیدا کی جارہی ہے اور ہمیں بحیثیت قوم ان سب منصوبوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔