نئی دہلی، 13 جولائی:
دنیا کے اسٹریٹجک تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف چین کا اسٹریٹجک حملہ ایک منصوبہ بند اقدام ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے فوری اور طویل مدتی منصوبہ بندی ضروری ہے چائنا سنٹر فار اینالیسس اینڈ اسٹریٹیجی (سی سی اے ایس) اور بین الاقوامی تھنک ٹینک کونارڈ اڈینائر اسٹفٹنگ (کے اے ایس) کی طرف سے منگل کی شام چینی جارحیت کے تسلسل پر ایک کانفرنس میں سی سی اے ایس کے صدر جے دیو راناڈے، وویکانند سینٹر کے ڈائریکٹر اروند گپتا، کے اے ایس کے ڈائریکٹر ایڈریان ہاک، جاپانی اسٹریٹجک تجزیہ کار ہیرویوکی اکیتا، تائیوان میں سن یات سین یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ینگ یولن، چین میں ہندوستان کے سفیر مسٹر گوتم بمباوالے، لیفٹیننٹ جنرل سنجے کلکرنی اور لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے شرکت کی۔
وویکانند کیندر کے ڈائریکٹر مسٹر گپتا نے پہلے سیشن کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ چین نے 2008-2009 میں اپنے ترقی کے سفر کو پرامن قرار دے کر شروع کیا تھا لیکن 2012 میں مسٹر شی جن پنگ کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ جارحانہ ہوگیا۔ گلوان وادی کے واقعہ کے بعد ہندوستان اور چین کے تعلقات کی بحث بدل گئی۔ عالمی سطح پر طاقت کے توازن کے مقابلے میں ایک طرف امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک ہیں تو دوسری طرف روس اور چین کی لامحدود شراکت داری ہے۔ اس کے علاوہ ایندھن، خوراک اور کھاد کی بلند قیمتیں اور روس پر مغربی پابندیاں ہیں۔ ایسے میں چین کا کردار کیا ہوگا، یہ ایک قابل بحث سوال ہے۔