سری نگر،17 مئی :
وادی کشمیر کی خواتین جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنی ذہانت و ذکاوت کا سکہ بٹھا رہی ہیں وہیں وہ کھیل کے میدان یہاں تک مارشل آرٹس جیسے مشکل میدان کھیل میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔
جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے نہال پورہ سے تعلق رکھنے والی آہنی ارادے اور فولادی ہمت کی مالک شاریہ منظورنہ صرف اپنے ضلعے کی پہلی خاتون بوکسر ہیں بلکہ انہوں نے اس مشکل ترین میدان کھیل میں کئی اعزازات حاصل کئے ہیں۔
شاریہ منظور پہلے بیڈمنٹن کھیلتی تھی لیکن بعد میں ایک دن انڈور اسٹیڈیم میں بوکسنگ کا مقابلہ دیکھنے کے دوران ہی ان کی اس کھیل میں دلچسپی بڑھ گئی۔
ان کا محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ‘سکون‘ پروگرام میں کہنا تھا کہ بوکسنگ کا مقابلہ دیکھتے ہی میری اس میں دلچسپی بڑھ گئی اور میں نے بیڈمنٹن سے ترک تعلق کرکے اسی میں پریکٹس کرنا شروع کی۔
انہوں نے کہا: ’پہلے پہل مجھے گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مجھے پہلے بوکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ میری بوکسنگ میں دلچسپی مزید بڑھتی ہی گئی‘۔
شاریہ نے سال 2021 میں منعقدہ یوتھ گیمز آل انڈیا نیشنل چمپیئن شپ میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور اس کے علاوہ انہیں کئی دیگر اعزازات سے نوازا گیا
جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے انہیں ینگ لیڈرشپ ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’ایک دن میری ملاقات جموں وکشمیرپولیس بوکسنگ ٹیم کی ایک کوچ صاحبہ سے ہوئی موصوفہ نے میری رہنمائی کی اور اس کے بعد میں نے ایک نوٹیفکیشن دیکھی کہ جموں میں سٹیٹ سطح کی بوکسنگ چمپیئن شپ ہونے والی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا: ’میں اپنے والد کے ساتھ جموں پہنچی اور وہاں اس چمپیئن شپ میں حصہ لے کر میڈل حاصل کیا‘۔
موصوف خاتون بوکسر نے ملک کی مختلف ریاستوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’میں نے جموں و کشمیر کے تمام اضلاع میں منعقد ہونے والے بوکسنگ مقابلوں میں حصہ لیا ہے اور اس کے علاوہ میں نے پنجاب، کرناٹک، آسام اور بنگلور میں بھی منعقد ہونے والی بوکسنگ چمپیئن شپز میں کھیلا ہے‘۔
شاریہ نے کہا کہ مارشل آرٹس میں آج لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کو دیکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا: ’مارشل آرٹس میں آج اتنے لڑکے نہیں ہیں جتنی لڑکیاں ہیں لڑکی کھیل کے کسی بھی شعبے میں جا کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکتی ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا: ’ ہمیں اپنے ہنر کو اپنی طاقت بنانا چاہئے‘۔موصوفہ نے کہا کہ بوکسنگ ایک اولمپک کھیل ہے لیکن اس میں یہاں گنے چنے کھلاڑی ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ کھیل مشکل اور پر خطر ضرور ہے لیکن اس میں سب سے زیادہ آگے بڑھنے کا موقع ہے۔
شاریہ کو اس مشکل کھیل میں آگے بڑھنے کے لئے اپنے والدین نے، معاشرے کے مزاج کی پراہ کئے بغیر، ہر ممکن تعاون فراہم کیا۔
چانچہ انہوں نے کہا: ’جب میں نے کھیلنا شروع کیا تو لوگوں نے بھی باتیں کرنا شروع کیں لیکن میرے والدین نے مجھے کافی سپورٹ کیا جس کی وجہ سے میں آج اس مقام تک پہنچ پائی‘۔(یو این آئی)