سری نگر،29 مارچ:
وادی کشمیر میں شمالی کشمیر کا قصبہ سوپور جہاں بھاری مقدار میں سیب کی پیداوار فراہم کرنے کے باعث ’اپیل ٹاؤن‘ کے نام سے مشہور ہے وہیں جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ایک ایسا گاؤں واقع ہے جس کو ’پنسل ولیج آف انڈیا‘ کےنام سے جانا جاتا ہے۔پلوامہ کا اوکھو نامی یہ گاؤں ملک میں تیار ہونے والے پنسلوں کے لئے نوے فیصد خام مواد سپلائی کرتا ہے۔
اس گاؤں کی شہرت کی گونج ملک کے گوشہ و کنار میں اس وقت سنائی دی گئی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے 70 ویں ماہانہ ریڈیو پروگرام ’من کی بات‘ میں اس گاؤں کی تعریفوں کے پل باندھے۔
اوکھو میں ایسی لکڑی دستیاب اور کارخانے قائم ہیں کہ ملک کو پنسل تیار کرنے کے لئے اب چین وغیرہ جیسے بیرونی ممالک سے خام مواد در آمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔اس گاؤں میں کم سے کم اٹھارہ فیکٹریاں قائم ہیں جو ملک کی پنسل فیکٹریوں کو خام مواد فراہم کر رہی ہیں اور ہمارے بچوں کے ہاتھوں میں پنسل آجاتے ہیں۔منظور احمد الائی نامی ایک فیکٹری مالک نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ نٹراج پنسلز پہلے پنسل بنانے کے لئے دیودار کی لکڑی کا استعمال کرتے تھے لیکن جب وہ ختم ہوگئے تو بیرون ممالک جیسے چین، جرمنی سے خام مواد لانا پڑتا تھا۔
انہوں نے کہا: ’لیکن بعد میں یہاں ہمارے علاقے کے سفیدوں کی لکڑی پنسل بنانے کے لئے موزوں پائی گئی، یہ سیلابی علاقہ ہے یہاں کے سفیدوں کی لکڑی میں نمی کافی وقت تک رہتی ہے اور ہندوستان پنلسز جو پنسلوں کے مختلف برانڈ تیار کرتی ہے پہلے یہاں سے ٹرکوں میں ان سفیدوں کے شہتیر لے جاتے تھے‘۔
موصوف فیکٹری مالک نے کہا کہ میں پہلے ان کے ساتھ یہاں مزدور کی حثیت سے کام کرتا تھا۔انہوں نے کہا: ’کئی برسوں تک مزدور کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد میں ایک دن ٹرک والوں کے ساتھ ہی باہر گیا اور وہاں دیکھا کہ فیکٹری میں اس لکڑی سے کیا اور کیسے تیار کیا جاتا ہے‘۔ان کا کہنا تھا: ’یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد میں نے سال2010 میں اپنے گاؤں میں ایک بینڈ سا قائم کیا اور باہر کی فیکٹری والوں کو یہیں سے پنسل بنانے کے لئے لکڑی کے سلیٹ فراہم کرنے لگا‘۔منظور احمد نے کہا کہ اس سے فیکٹری والوں کو کافی سہولیت بھی میسر ہوئی اور خرچہ بھی بچ گیا۔انہوں نے کہا کہ ایک سال تک میں فیکٹریوں کو لکڑی کے یہ سلیٹ سپلائی کرتا رہا اور اس کے بعد میں پھر وہاں گیا اور ہندوستان پنلسز کی وساطت سے چین سے ایک اور مشین لائی۔موصوف فیکٹری مالک نے کہا کہ ہم فیکٹروں کو خام مواد ہی سپلائی کرتے ہیں جبکہ جموں اور گجرات وغیرہ میں پھر پنسل تیار ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پنسل بنانے کے لئے ملک کو لگ بھگ نوے فیصد خام مواد یہیں سے سپلائی ہوتا ہے جس میں سے پچاس فیصد میرے کارخانے کا ہوتا ہے۔
منظور احمد نے کہا کہ میری فیکٹری میں سال 2012 سے کام اچھی طرح سے شروع ہوا۔انہوں نے کہا کہ وادی میں اسکول بند ہونے کے بعد ہمارا کام کافی متاثر ہوا لیکن اب اسکول دوبارہ کھل جانے کے ساتھ ہی ہمارا کام بھی بڑھنے لگا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میرے کارخانے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ زائد از ایک سو افرد کام کر رہے ہیں جن میں لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ہیں۔
موصوف فیکٹری مالک نے کہا کہ اگر مجھے چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کی جائے گی تو میں مزید ایک سو افراد کو روزگار دوں گا۔انہوں نے کہا: ’بجلی کی قلت کی وجہ سے میں اچھی طرح سے کام نہیں کر پا رہا ہوں اگر مجھے چوبیس گھنٹے بلا خلل بجلی دی جائے گی و میں مزید ایک سو افراد کو کام دوں گا‘۔ان کا کہنا تھا کہ میرا سارا کنبہ اسی کام کے ساتھ وابستہ ہے اور میں اس کو مزید وسعت دینا چاہتا ہوں۔منظور احمد نے کہا کہ حکومت نے میری آج تک کوئی مدد نہیں کی ہے اور میراحکومت سے صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ وہ مجھے چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے کشمیر میں ہنر مندوں کی کوئی کمی ہے نہ وسائل کی، ضرورت صرف اپنے ہنر کو بروئے کار لاکر محنت کرنے کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نوجوانوں کو مشقت کرکے اپنے روز گار کی خود سبیل کرنی چاہئے۔یو این آئی