نئی دہلی ،13مئی:
سپریم کورٹ نے جمعہ کو حد بندی کمیشن کی تجویز کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی کی سماعت کے دوران پر مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر انتظامیہ سے جواب طلب کیا۔ بی جے پی حکومت کی جانب سے تشکیل دیے گئے حد بندی پینل نے مرکز کے زیر انتظام خطے (جموں و کشمیر) میں اسمبلی نشستوں کو 83 سے بڑھا کر 90 کرنے کی سفارش کے علاوہ پارلیمانی و اسمبلی نشستوں میں پھیر بدل کیا ہے۔
سپریم کورٹ میں حد بندی کمیشن کی سفارشات کو چیلنج کرنے والی درخواست میں کمیشن کی جانب سے اسمبلی نشستوں میں اضافے کو بھارتی آئین کے دفعہ 81، 82، 170 اور 330 اور 332 اور جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کی دفعہ 63 کی خلاف ورزی قرار دے کر سفارشات کو کالعدم قراری دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کے رہائشیوں کی جانب سے دائر کی گئی عرضی میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ حد بندی ایکٹ 2022 کے تحت تشکیل شدہ حد بندی کمیشن کو اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے مرکزی سرکار سمیت جموں و کشمیر کی لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ سے جواب طلب کیا ہے۔ اس معاملے کی اگلی سماعت 30 اگست کو ہوگی۔
گذشتہ ہفتے ایک پینل، جس کو جموں و کشمیر کے حلقوں کا از سر نو خاکہ تیار کرنے کا کام سونپا گیا تھا، نے مشق کو مکمل کرتے ہوئے انتخابی نقشے کو حتمی شکل دی اور خطے میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ J&K حد بندی کمیشن کی سفارشات، نشستوں میں پھیر بدل دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر کے حوالے سے پہلا بڑا اقدام مانا جا رہا ہے۔قابل ذکر ہے کہ مرکزی سرکار کی جانب سے تعینات کی گئی تین رکنی حد بندی کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ میں ہندو اکثریتی خطہ جموں کے لیے 43 اور مسلم اکثریتی علاقہ وادی کشمیر کے لیے 47 نشستیں رکھنے کی سفارش کی۔ اضافہ کی گئی سات نئی نشستوں میں سے چھ جموں جب کہ کشمیر میں محض ایک نشست کا اضافہ کیا گیا۔ حد بندی کمیشن کی رپورٹ پر سبھی غیر بی جے پی سیاسی جماعتیں اعتراض ظاہر کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج بھی کر رہی ہیں۔