نئی دہلی: پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس پیر یعنی 22 جولائی سے شروع ہو رہا ہے۔ اس سیشن میں مودی حکومت اپنی تیسری مدت کا پہلا بجٹ پیش کرے گی، جس سے عوام کو بھی بہت زیادہ توقعات ہیں۔ 23 جولائی کو وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن ایوان میں عام بجٹ پیش کریں گی۔ حکومت بجٹ اجلاس کے دوران اختصاصی بل (Appropriation Bill) بھی پاس کرے گی۔ اس کے علاوہ حکومت جموں و کشمیر کا بجٹ بھی بحث کے بعد منظور کرے گی۔
اس سیشن میں حکومت نے چھ بل بھی شیڈول کیے گئے ہیں، جنہیں حکومت سیشن کے دوران ہی پاس کرانے کی کوشش کرے گی۔ فنانس بل کے علاوہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ بل، بوائلرز بل، بھارتی وایویان بل، کافی پروموشن اینڈ ڈیولپمنٹ بل اور ربر پروموشن اینڈ ڈیولپمنٹ بل شامل ہیں۔
پارلیمنٹ کے اجلاس سے پہلے، حکومت نے اتوار 21 جولائی کو ایک آل پارٹی میٹنگ بلائی ہے، جس میں پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی اور تمام جماعتوں کے رہنما بھی شرکت کریں گے۔ شرکت اجلاس میں حکومت تمام جماعتوں سے اجلاس کے دوران ان کی حمایت کرنے اور ایوان کی کارروائی کو خوش اسلوبی سے چلانے کی اپیل کر سکتی ہے۔ لیکن لوک سبھا میں تعداد بڑھنے کی وجہ سے اپوزیشن کا موقف جارحانہ نظر آرہا ہے۔
اپوزیشن کے پاس بھی حکومت کے خلاف کئی مسائل ہیں جن میں مہنگائی، ٹرین حادثہ، اگنیور یوجنا، جموں و کشمیر میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں فوجیوں کی شہادت، کانوڑ یاترا کے روٹ پر پڑنے والی دکانوں اور اسٹالز پر مالکوں کا نام لکھنے کا یوگی حکومت کا فرمان جیسے ایشوز پر پوری اپوزیشن متحرک ہو کر حکومت کو گھیرنے کی کوشش کرے گی، جس کے دفاع میں حکومت بھی اپنی حکمت عملی تیار کر رہی ہے۔ ذرائع کی مانیں تو کانگریس اور سماج وادی پارٹی این ڈی اے حکومت کے خلاف کئی پاور پوائنٹ ایشوز تیار کر رہی ہیں جس سے حکومت کو گھیرا جا سکے۔
تاہم پارلیمنٹ کے اجلاس کے آغاز سے قبل لوک سبھا سکریٹریٹ نے ایک بزنس ایڈوائزری کمیٹی بھی تشکیل دی ہے، جس میں تمام پارٹیوں کے لیڈروں کو جگہ دی گئی ہے۔ اس کمیٹی کے چیئرمین لوک سبھا اسپیکر خود ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی کی جانب سے نشی کانت دوبے، انوراگ سنگھ ٹھاکر، بھرتری ہری مہتاب، پی پی چودھری، بیجینت پانڈا، ڈاکٹر سنجے جیسوال کو کمیٹی میں رکھا گیا ہے۔ کانگریس سے کے سریش، گورو گوگوئی، ٹی ایم سی سے سدیپ بندوپادھیائے، ڈی ایم کے سے دیاندھی مارن، شیو سینا یو بی ٹی سے اروند ساونت کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ یہی کمیٹی لوک سبھا میں قانون سازی کے کام کا شیڈول بھی تیار کرتی ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس اجلاس میں کچھ ایسے ایشوز ہیں جنہیں اٹھا کر اپوزیشن نہ صرف ایوان میں ہنگامہ برپا کرے گی بلکہ حکومت میں شامل کچھ اتحادیوں کی حمایت بھی حاصل کر سکتی ہے۔ اس لیے حکومت این ڈی اے پارٹیوں کے ساتھ میٹنگ کر کے انہیں اعتماد میں لینے کی کوشش کر سکتی ہے۔
گزشتہ اجلاس میں ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے این ڈی اے کی مختلف پارٹیوں کے ترجمانوں کا ایک گروپ بنانے کی بات کی تھی جو میڈیا میں حکومت کے ان ایشوز کا جواب دے گا۔ اس کے علاوہ تمام اراکین اسمبلی کو ہدایت کی گئی کہ وہ بے جا بیانات دینے سے گریز کریں اور ترجمانوں کو اپنا کام کرنے دیں۔ اس کا اثر اس اجلاس میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تاہم حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ اجلاس طوفانی ہونے کا امکان ہے۔ گزشتہ اجلاس میں اپوزیشن جارحیت کا مظاہرہ کرکے ایک مثال پیش کر چکا ہے۔