کینبرا، 20 مارچ:
یوکرین میں شہریوں اور ضروری خدمات کے اداروں پرروسی حملے کے خلاف دنیا بھر میں مظاہروں میں شدت آ گئی ہے۔گزشتہ 25 دنوں سے جاری لڑائی خطرناک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔
روس یوکرین پر روز بروز اپنے حملے تیز کر رہا ہے۔ اس نے ہفتے کے روز یوکرین پر ہائپرسونک میزائل سے حملہ کیا۔یوکرین کو خدشہ ہے کہ اتوار کے روز روس ملک کے کسی بھی حصے میں فضائی حملہ کر سکتا ہے۔ اس خطرے کے پیش نظر یوکرین کے ہر شہر میں فضائی حملے کا الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔
دریں اثناء پوپ فرانسس کی یوکرین کے جنگ زدہ بچوں سے ملاقات کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔یوکرین پر روسی حملے کی دنیا کے کونے کونے میں مخالفت ہو رہی ہے۔ روسی حملے کے خلاف سڈنی میں لوگ آئے روز سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے ہیں۔آسٹریلیا کے علاوہ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں بھی زبردست احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ روس کے بعض شہروں میں شہری اس جنگ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
امریکہ اور نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن(نیٹو) ممالک میں روس کے ساتھ ساتھ چین اور بیلاروس کے خلاف بھی غصہ پایا جاتا ہے۔ کئی ممالک کے شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اکیسویں صدی ہے، روسی صدر ولادی میرپوتن ایسا نہیں کر سکتے۔ انہیں جلد از جلد جنگ روکنی ہوگی۔آسٹریلوی حکومت نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک پر اس طرح کے حملے کو ہرگز جائز نہیں کہا جا سکتا۔روس پر دباؤ ڈالنے کے لیے امریکا سمیت کئی ممالک نے اس پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
بی بی سی نے اتوار کو سڈنی یونیورسٹی کے پروفیسر دیمیترو ماتسوپورا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں یہاں رہ کر بھی بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ ضرورت پڑنے پر بندوق اٹھانے سے دریغ نہیں کروں گا۔ میرا خاندان یوکرین میں ہے اور تمام تباہی کے بعدانتہائی خوفناک مناظر اور خوف کے اندھیرے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ میرے 70 سالہ سسر اپنی شکاری رائفل کے ساتھ کھڑکی کے پاس حملہ آوروں کا انتظار کر رہے ہیں۔ جیسے ہی حملہ آور ان کے قریب آئیں گے، وہ انہیں گولیوں سے بھون دیں گے۔