چٹان ویب مانیٹرینگ
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے طالبان کی جانب سے افغان خواتین پر عائد کی گئی نئی پابندیوں پر خصوصی اجلاس منعقد کیا ہے۔
امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سکیورٹی کونسل کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں طالبان کی جانب سے خواتین کو ’بلاضرورت باہر نکلنے‘ سے منع کرنے اور سر سے پاؤں تک خود کو ڈھانپنے کے احکامات پر تشویش کا اظہار کرنے کے لیے باقاعدہ صدارتی بیان جاری کرنے پر غور کیا گیا۔
ناروے کی جانب سے ڈرافٹ کیے گئے بیان میں افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو دبانے پر مبنی پالیسیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا جائے گا۔
گزشتہ سنیچر کو جاری نئے حکم نامے میں طالبان نے خواتین کو گھروں سے نکلنے سے منع کیا ہے جبکہ چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات کے سکول جانے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔
اقوام متحدہ میں ناروے کے نائب مندوب ٹرائن ہیمربیک نے سکیورٹی کونسل کے اجلاس سے قبل صحافیوں کو بتایا کہ ’طالبان بدترین معاشی حالات اور انسانی المیے سے نمٹنے کی بجائے خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں لگانے پر توجہ دے رہے ہیں جس سے تشدد اور بنیاد پرستی بڑھے گی۔‘
دوسری جانب اے ایف پی کے مطابق جمعرات ہی کو ترقی یافتہ ممالک کے گروپ ’جی سیون‘ نے بھی افغانستان میں طالبان کی جانب سے خواتین پر عائد کی گئی پابندیوں کی مذمت کی ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ طالبان ملک کو تنہا کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے والے سخت گیر طالبان نے اپنے 1996 والے دور اقتدار کی پالیسیوں کا اعادہ شروع کر دیا ہے اور وہ خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنا رہے ہیں۔علاوہ ازیں خواتین کے مرد رشتہ دار کے بغیر سفر پر بھی پابندی ہے جبکہ پارکوں میں بھی مردوں اور خواتین کے جانے کے لیے الگ الگ دن مقرر کیے گئے ہیں۔دوسری جانب سکیورٹی کونسل کے خواتین، امن اور سکیورٹی سے متعلق گروپ نے بھی کونسل کے ارکان کو جمعرات کو ایک خط میں کہا ہے کہ طالبان کے نئے فیصلے تشویش ناک ہیں۔خط میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیاں لگانا سکیورٹی کونسل کے افغان خواتین کو ہر شعبے میں برابر اور بامعنی کردار دینے کے پیغام کی کھلی توہین ہے۔
اس موقعے پر آئرلینڈ کے نمائندے جیرالڈائن بائرن نیسن نے کہا کہ ’افغان خواتین اس وقت بعض سخت ترین پابندیوں کا سامنا کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور سکیورٹی کونسل کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ طالبان کے ان اقدامات کی مذمت اور اس پر کارروائی کرے۔‘