از:ابھینو گوئل
گلے میں ‘رادھے رادھے ‘ کا سکارف اور منگل سوتر، ہاتھ میں سرخ چوڑیاں اور ماتھے پر لال بندیا۔ اپنے دو کمروں کے گھر میں صحافیوں، کیمروں اور مائیکوں سے گھری سیما حیدر بڑے اعتماد کے ساتھ سوالوں کے جواب دے رہی تھیں۔ قریب ہی انکے عاشق سچن مینا بھی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ملک کے بڑے نیوز چینلز کے اینکرز، رپورٹرز سے لے کر درجنوں یوٹیوبرز سیما سے بات کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔گھر میں موجود ہجوم میں سیما کے چار بچوں کو آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔ کچھ صحافی ان بچوں کو ’ہندوستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کر رہے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے بچوں کو اپنے کیمروں میں قید کر رہے ہیں۔اس درمیان قصبے کی کچھ خواتین اور کچھ ہندو تنظیموں کے لوگ بھی ملنے آ رہے ہیں۔ آشیرواد دیتے ہوئے یہ لوگ سیما کے ہاتھ میں کچھ پیسے پکڑ ا رہے ہیں اور ان کی تصویریں کھینچ رہے اس درمیان گھر میں ’جئے شری رام‘ کے نعرے بھی سنائی دے رہے ہیں، جب کہ کچھ لوگ سیما سے گھر میں لگے تلسی کے پودے کو پانی دینے کی بھی درخواست کرتے ہیں۔یہ منظر اتر پردیش کے گریٹر نوئیڈا کے ربوپورہ میں واقع سچن مینا کے گھر کے ہیں۔ دونوں کی ضمانت ہونے کے بعد یہاں لوگوں کا ہجوم ہے۔بی بی سی ہندی کی ٹیم بھی صبح سے تیز بارش کے درمیان سیما حیدر اور سچن مینا سے ملنے پہنچ گئی ۔گھر میں داخل ہوتے ہی سچن کے والد نیترپال مینا، چارپائی پر بیٹھے، ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں، ’اب سب ٹھیک ہے، بچے خوش ہیں‘۔ چند گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ہمارا نمبر سیما اور سچن سے بات کرنے آیا۔
پب جی کے دو کھلاڑی
تقریباً بیس منٹ کی گفتگو میں دونوں نے ان تمام سوالوں کے جواب دیے جو ان کی دوستی اور غیر قانونی طور پر انڈیا میں داخل ہونے سے لے کر جاسوسی کے الزامات، شادی، ہندو مذہب میں شمولیت کے متعلق ہیں۔پاکستان کی سیما حیدر کی شادی سال 2014 میں جیکب آباد کے رہائشی غلام حیدر سے ہوئی تھی۔ اس شادی سے ان کے چار بچے ہوئے۔ بعد ازاں دونوں کراچی شفٹ ہو گئے اور 2019 میں غلام حیدر کام کے سلسلے میں سعودی عرب چلے گئے۔یہ وہ وقت تھا جب سیما نے سچن مینا سے بات کرنا شروع کی اور اس کا ذریعہ ایک آن لائن گیم تھا۔سیما کہتی ہیں: ’ہماری محبت کی کہانی پب جی کھیلنے سے شروع ہوئی تھی۔ سچن پرانا کھلاڑی تھا اور میں نئی تھی۔ پب جی پر میرا نام ماریہ خان تھا۔ سچن نے مجھے گیم کھیلنے کی درخواست بھیجی تھی۔’ہم گیمز کھیلتے ہوئے نمبرز کا تبادلہ کرتے تھے۔ جب بھی سچن گیم کھیلنے کے لیے آن لائن آتے تھے، وہ مجھے ‘گڈ مارننگ ‘، ‘تم بھی آؤ جی ‘ کا پیغام دیتے تھے۔
آن لائن کھیلوں میں دوستی
سیما کہتی ہیں، ’تین سے چار ماہ تک گیم کھیلنے کے بعد ہم دوست بن گئے۔ میں اسے ویڈیو کال پر پاکستان دکھاتی تھی، یہ مجھے انڈیا دکھاتے تھے۔ وہ خوش تھا کہ وہ پاکستان کو دیکھ رہا ہے اور میں خوش تھی کہ انڈیا دیکھ رہی ہوں۔ اگر کسی دوسرے ملک کا کوئی شخص آپ سے بات کرے تو خوشی ہوتی ہے۔سیما کہتی ہیں کہ ’میں زیادہ خوش تھی کہ میں انڈیا کے ایک لڑکے سے بات کر رہی ہوں۔ اس طرح ہم ساری ساری رات باتیں کرنے لگے۔ یہ عادت بن سے گئی اور ہمیں محبت ہو گئی‘۔جب محبت غالب آئی تو سیما نے سچن سے ملنے کا فیصلہ کیا، لیکن سیما کے لیے یہ آسان نہیں تھا۔سیما حیدر کا کہنا ہے کہ ’ایسا نہیں ہے کہ میں پاکستان سے نفرت کرتی ہوں، میں وہاں رہی ہوں، میرا بچپن وہیں گزرا ہے۔ میرے بھائی بہن، والدین سب وہیں سے ہیں۔ میرے والدین کی قبریں وہیں پر ہیں‘۔’زندگی ایک بار ہی ملتی ہے چند سال بعد بڑھاپا اور پھر موت۔ آخر کار میں نے اپنی محبت کا انتخاب کیا‘۔
محبت کے لیے پہلی پرواز
سیما حیدر نے اپنی محبت کو حاصل کرنے کے لیے نیپال کا انتخاب کیا، لیکن ان کے انتخاب کے پیچھے ایک خاص وجہ تھی۔سیما کہتی ہیں، ’ہم دبئی سے بھی مل سکتے تھے، لیکن سچن کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ ہندوستانی لوگ بغیر پاسپورٹ کے نیپال جا سکتے ہیں تو ہم نے نیپال میں ملنے کا فیصلہ کیا۔ملاقات کا وقت اور جگہ طے کرنے کے بعد سیما نے نیپال کا سیاحتی ویزا لیا اور شارجہ کے راستے کھٹمنڈو پہنچیں۔سیما کہتی ہیں، ’میں پہلی بار 10 مارچ 2023 کو پاکستان سے نکلی اور شام کو کھٹمنڈو پہنچی۔ میں پہلی بار ہوائی جہاز سے جا رہی تھی ۔ جب ہوائی جہاز نے اڑنا شروع کیا تو میں بالکل بہری سی ہو گئی تھی‘۔
نیپال میں شادی ہوئی ، ہندو مذہب اختیار کیا
سچن پہلے ہی کھٹمنڈو میں سیما کا انتظار کر رہے تھے۔ سچن کے مطابق اس نے ہوٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لیا تھا، جس کے لیے وہ ہوٹل کے مالک کو روزانہ 500 روپے ادا کرتے تھے۔اس دوران سیما حیدر کے انسٹاگرام پر ایسی کئی ویڈیوز موجود ہیں جن میں دونوں کھٹمنڈو کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس دوران دونوں نے بڑا فیصلہ کیا۔سیما کہتی ہیں، ’ہماری شادی 13 مارچ کو کھٹمنڈو کے پشوپتی ناتھ مندر میں ہوئی۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی مدد سے ہم شادی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہمارے پاس ویڈیوز بھی ہیں… میں نے خود ہندو مذہب اختیار کر لیا ہے۔ مجھ پر کسی نے دباؤ نہیں ڈالا۔‘شادی تو ہو گئی لیکن سیما انڈیا نہ آ سکیں کیونکہ کراچی میں چار بچے ان کے منتظر تھے۔ وہ لاہور میں درگاہ جانے کے بہانے سچن سے ملنے نیپال آئی تھیں۔
محبت میں گھر بیچ دیا
سیما پاکستان واپس آگئیں لیکن اب یہاں ان کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ دو مہینے گزر گئے اور سیما نے اپنے بچوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔سیما کہتی ہیں، ’میرے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے۔ میرے نام پر گھر تھا جو میں نے 12 لاکھ میں بیچا۔ اس رقم سے میں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے نیپال کا ویزا حاصل کیا جس پر تقریباً پچاس ہزار روپے خرچ ہوئے۔اس بار سیما کا ارادہ نیپال کے راستے انڈیا میں داخل ہونے کا تھا۔ سیما نے دوبارہ سفر کے لیے 10 مئی کا انتخاب کیا، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ یہ تاریخ ان کے لیے خوش قسمت ثابت ہوگی، کیونکہ 10 مارچ کو وہ نیپال میں پہلی بار سچن سے ملی تھیں۔سیما کہتی ہیں، ’دوسری بار آنا آسان تھا، کیونکہ انٹری، ایگزٹ اور کنیکٹنگ فلائٹس پہلے سے معلوم تھیں۔ میں 10 مئی کو اپنے بچوں کے ساتھ وہاں سے (پاکستان) روانہ ہوئی اور 11 مئی کی صبح کھٹمنڈو پہنچی، پھر پوکھرا گئی اور رات وہیں رہی۔صبح چھ بجے، میں نے بچوں کے ساتھ دہلی کی بس پکڑی۔ میں نے اپنے شوہر کے طور پر سچن کا نام لکھا۔ سچن نے ٹکٹ بنانے والوں سے بھی فون پر بات کی۔ میں گریٹر نوئیڈا پہنچ گئی‘۔ یہاں سچن ان کا انتظار کر رہا تھا جس کے بعد وہ اسے ربو پورہ میں کرائے کے کمرے میں لے گیا۔پوکھرا سے دہلی کے لیے ہر صبح بسیں چلتی ہیں۔ تقریباً 28 گھنٹے کے اس سفر میں ہند-نیپال سرحد آتی ہے، جہاں تمام مسافروں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے، لیکن سخت حفاظتی نظام میں سیما آسانی سے انڈیا میں داخل ہو گئیں۔سیما کہتی ہیں، ’سچن نے اپنا پتہ صحیح لکھا تھا۔ بہت پوچھ گچھ ہوئی، بیگ چیک کیے گئے۔ اس نے آئی کارڈ کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ گم ہو گیا ہے۔ میرے بچے بیمار پڑ گئے تھے، یہ تین دن کا سفر تھا۔ میری بڑی بیٹی کو قے آ رہی تھی۔ چیک کرنے والوں کو مجھ پر رحم آیا۔
شوہر غلام حیدر سے زبانی طلاق
سیما کے شوہر غلام حیدر نے سعودی عرب سے اپیل کی ہے کہ ان کی بیوی اور بچوں کو پاکستان واپس بھیج دیا جائے۔دوسری جانب سیما کا کہنا ہے کہ ان کی غلام حیدر سے زبردستی شادی کی گئی تھی اور وہ اسے طلاق دے چکی ہیں۔وہ کہتی ہیں، ’میں 2013 میں کسی کو پسند کرتی تھی۔ گھر والوں کو یہ بات پسند نہ آئی تو انہوں نے زبردستی میری شادی غلام حیدر سے کروا دی۔ اس وقت میری عمر صرف 17 سال تھی۔سیما کہتی ہیں، ’پاکستان میں بھی 18 سال کی لڑکی کوئی بھی فیصلہ خود لے سکتی ہے۔ میں آج 27 سال کی ہوں۔ میں اپنی زندگی کا فیصلہ خود کر سکتی ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ میں عورت ہوں اس لیے میں کسی مرد کو طلاق نہیں دے سکتی۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں تحریری طلاق نہیں ملی ہے، زبانی طلاق ملی ہے۔ بی بی سی اردو سے گفتگو میں سیما کے سسر میر جان زکھرانی نے الزام لگایا کہ وہ گھر سے بھاگتے ہوئے سات لاکھ روپے اور سات تولے سونا لے گئی ہیں۔ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے سیما نے کہا، ’میں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ میرے پاس میری ماں کا سونا ہے۔ جسے میں نے اپنے کان اور ہاتھ میں پہنا ہوا ہے۔ جو ان کی ماں کی نشانی تھی۔
’پاکستان واپس نہیں جانا چاہتی
سیما کا کہنا ہے کہ اب وہ انڈیا میں رہنا چاہتی ہیں اور سچن کے ساتھ خوش ہیں لیکن اپنی بہنوں کو یاد کرکے ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔وہ کہتی ہیں’بہنوں کو سب پیار کرتے ہیں۔ بہنیں بھی یاد آتی ہیں۔ ایک بڑی بہن اور ایک چھوٹی ہے۔ بڑی کی شادی ہو گئی ہے۔ میرا بھائی چھوٹی بہن کا خیال رکھے گا۔ میرے والد کے جانے کے بعد پاکستان میں میرا کوئی نہیں تھا۔ اب میری شادی سچن سے ہو گئی ہے۔ وہ میرے بچوں کا خیال رکھتے ہیں، میری عزت کرتے ہیں۔ میرے لیے یہ کافی ہے.‘اپنے وطن واپسی کے سوال پر سیما جذباتی ہو جاتی ہیں۔ ’میں مر جاؤں گی، ختم ہو جاؤں گی، میں اپنا گلا کاٹ لوں گی، میں زہر کھا لوں گی، لیکن کسی بھی حال میں واپس نہیں جاؤں گی۔ میرے پاس وہاں کچھ نہیں ہے۔‘سچن مینا بھی ایسا ہی کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’میں نے سیما سے شادی کی ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں انہیں ہندوستان سے نہیں جانے دوں گا۔فی الحال ضمانت ملنے کے بعد سیما اور سچن اب ایک ساتھ ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مذاہب اور ملکوں کی سرحدوں کو عبور کرنے والی یہ کہانی آگے کہاں تک پہنچتی ہے۔
بشکریہ : بی بی سی اردو
