ویب ڈیسک
اسرائیلی بمباری سے بے گھر ہونے والا الطباطبائی خاندان وسطی غزہ میں رمضان کے پہلے جمعے کی رات کو اکٹھے کھانا کھانے کے لیے جمع ہوا تھا، لیکن یہ منظر جلد ہی ایک قتل عام کا منظر پیش کرنے لگا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو زندہ بچ جانے والے افراد نے سنیچر کو بتایا کہ اس عمارت پر فضائی حملہ ہوا جس میں الطباطبائی خاندان مقیم تھا اور ان کی خواتین سحری کی تیاری کر رہیں تھیں۔ اس حملے میں خاندان کے 36 افراد ہلاک ہوئے۔
حماس کے زیرِحکمرانی غزہ کی وزارت صحت نے بھی 36 ہلاکتیں رپورٹ کی ہیں جبکہ اس نے النصيرات میں ہونے والے اس فضائی حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔ تاہم اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
دير البلح.کے قریب موجود شهدا الاقصى ہسپتال میں موجود 19 سالہ محمد الطباطبائی نے روتے ہوئے کہا کہ ’یہ میری ماں ہے، یہ میرا باپ ہے، یہ میری خالہ ہے اور یہ میرے بھائی ہیں۔‘
’انہوں نے گھر پر تب بمباری کی جب ہم اندر موجود تھے۔ میری ماں اور خالہ سحری کا کھانا تیار کر رہی تھیں۔ وہ سب شہید ہو گئے۔‘
محمد الطباطبائی جس وقت اے ایف پی سے بات کر رہے تھے اس وقت ان کے خاندان والوں کی لاشیں ہسپتال کے صحن میں پڑی ہوئی تھیں، پھر انہیں قبرستان لے جانے کے لیے ایک ٹرک پر رکھ دیا گیا۔
چونکہ باڈی بیگس زیادہ نہیں تھے، اس لیے مرنے والوں میں سے کچھ، جن میں کم از کم دو بچے بھی شامل تھے، خون سے رنگین سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے۔پیر سے شروع ہونے والے رمضان کا پہلا جمعہ مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں کشیدگی کے خدشات کے باوجود، اسرائیل کے زیرِقبضہ مشرقی یروشلم میں پرامن طریقے سے گزر گیا۔ لیکن غزہ میں ایک مختلف کہانی رقم ہوئی۔
حماس کے زیرِانتظام حکومت کے پریس آفس کے مطابق شمال میں غزہ شہر سے جنوب میں رفح تک راتوں رات النصيرات میں ہونے والا حملہ 60 ’مہلک فضائی حملوں‘ میں سے ایک تھا۔
حکومتی میڈیا آفس کے سلامہ معروف کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک خونی رات ہے، بہت خونی رات ہے۔‘
غزہ میں جنگ کا آغاز حماس کی جانب سے گذشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے ہوا۔ اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق اس حملے میں 1160 افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
اسرائیل کے جواب میں حماس کو تباہ کرنے کی مہم میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق کم از کم 31 ہزار 533 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔