ویب ڈیسک
اسلام آباد ؍پاکستان میں آزادیٔ صحافت اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ملک میں آزادیٔ اظہار کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ میں گزشتہ 12 ماہ کے دوران آن لائن پلیٹ فورمز پر اختلافِ رائے کے لیے برداشت میں کمی، رواں سال فروری میں ہونے والے عام انتخابات کے دن موبائل نیٹ ورک اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی معطلی اور صحافیوں کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کی شکایات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔فریڈم نیٹ ورک نے تین مئی کو منائے جانے والے عالمی یومِ صحافت سے قبل جاری کئی گئی اس رپورٹ میں مئی 2023 سے اپریل 2024 کے دوران پیش آنے والے حالات و واقعات کے تناظر میں آزادیٔ اظہار کو درپیش خطرات کا احاطہ کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران پاکستان میں مبینہ طور پر ریاستی جبر اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے کی جانے والی مبینہ کارروائیوں کے باعث پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو دھچکا پہنچا ہے۔فریڈم نیٹ ورک نے اپنی رپورٹ میں گزشتہ ایک برس کے دوران پاکستان میں چار صحافیوں کے قتل پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ قتل ہونے والے صحافیوں میں سے دو کا تعلق سندھ اور دو کا پنجاب سے تھا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے خلاف مختلف نوعیت کے 104 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق شہری اور سیاسی جماعتوں کے نمائندے اپنی آرا کا آزادانہ اظہار نہیں کر پارہے ہیں اور آن لائن پلیٹ فارمز اور میڈیا پر بھی قدغنیں عائد کی جا رہی ہیں جن سے آزادیٔ اظہار کے لیے آئینی ضمانت کی نفی ہوتی ہے۔فریڈم نیٹ ورک کے سربراہ اقبال خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں شہریوں کو آئین کے تحت حاصل آزادئ اظہار کا قانونی حق روز بروز سکڑتا جارہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں کو کئی طرح کی پابندیوں اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ایک انتہائی قابلِ تشویش بات ہے۔پاکستان میں آزادیٔ صحافت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل رانا عظیم نے کہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں تمام صحافتی تنظیموں کو اپنے اختلافات سے بلند ہو کر جدوجہد کرنی چاہیے۔
قوانین پر تحفظات
رپورٹ میں حکومت کے مجوزہ ای سیفٹی بل اور پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ وزیرِ اعظم شہبازشریف کے سابق دورِِ حکومت کے دوران کابینہ نے جولائی 2023 میں ان بلوں کی منظوری دی تھی۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان مجوزہ بلوں کے تحت سوشل میڈیا پر ریاست مخالف مواد پوسٹ کرنے پر سزا دینے لیے علیحدہ ادارے قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔تاہم حکومتی عہدے دار کہتے ہیں کہ ان بلوں کا مقصد صارفین کے ڈیٹا کی حفاظت اور ان کا غیر قانونی استعمال روکنا ہے۔دوسری جانب رپورٹ میں آزادیٔ اظہارِ رائے سے متعلق بعض عدالتی اقدامات کو سراہا بھی گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سپریم کورٹ نے جنوری 2024 میں صحافیوں کی تنظیموں کی درخواست پر عدالتی امور کور کرنے والے صحافیوں کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے نوٹسز معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔اسی طرح لاہور ہائی کورٹ نے نومبر 2023 میں ایک صحافی کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور بغاوت کے الزام میں درج ایک مقدمہ خارج کر نے کا حکم دیا تھا۔رپورٹ میں فروری اور اپریل 2024 میں، بالترتیب سندھ ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کی معطلی کو منسوخ کرنے کے احکامات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
’قانون سازی پر بحث ہونی چاہیے‘
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ آزادیٔ اظہار اس کی اولین ترجیح ہے۔ البتہ مختلف مواقع پر وزرا سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی کا عندیہ دیتے رہے ہیں۔گزشتہ ہفتے کے اختتام پر لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ آزادئ اظہار کے ساتھ سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل رائٹس اور صارفین کے حقوق کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین سوشل میڈیا پر معقول حدیں لگانے کی اجازت دیتا ہے اور اسے اظہار رائے کی آزادی پر پابندی قرار نہیں دیا جاسکتا۔وفاقی وزیر تارڑ نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک نے ایسے ضابطے بنائے ہیں جن کے ذریعے ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی روک تھام کی گئی ہے۔تاہم فریڈم نیٹ ورک کے سربراہ اقبال خٹک کہتے ہیں کہ اگر حکومت سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی قانون سازی کرنا چاہتی ہے تو اس پر کھلی بحث ہونی چاہیے۔اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ قانون عوام کے لیے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے بارے مین عوام کی رائے جاننا ضروری ہے۔ ساتھ ہی عوام کو یہ جاننے کا بھی پورا حق حاصل ہے کہ کن قوانین سے ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا اور کن سے انہیں خطرات درپیش ہوں گے۔اقبال خٹک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر غیر اعلانیہ پابندی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک پلیٹ فارم کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔اقبال خٹک نے کہا کہ ایکس پر پابندی کی وجہ سے صحافیوں کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا ہے اور عوام کی معلومات تک رسائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔