ویب ڈیسک
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے ماہرین نے فرانس میں کھیلوں کے مقابلوں کے دوران خواتین اور لڑکیوں پر حجاب کی پابندی کو ’امتیازی سلوک‘ قرار دیتے ہوئے فیصلے کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق پیرس اولمپکس 2024 کے دوران فرانس نے اپنے سیکولر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہوئے کھلاڑیوں کو حجاب سمیت مذہبی علامات ظاہر کرنے والی کسی چیز کے استعمال پر پابندی لگائی تھی۔
فیصلے کے بعد فرانس کی فٹبال اور باسکٹ بال فیڈریشنز نے تمام سطح کے مقابلوں میں حجاب لینے والی خواتین پر پابندی عائد کی تھی۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کے 8 ماہرین نے ایک دستخط شدہ بیان میں کہا ہے کہ’ یہ فیصلے فرانسیسی کھلاڑیوں کے لیے غیر متناسب اور امتیازی ہیں جس سے کھلاڑیوں کو آزادانہ طور پر اپنی شناخت، اپنے مذہب کو نجی یا عوامی طور پر ظاہر کرنے اور تمام ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ ’حجاب کرنے والی مسلمان خواتین اور لڑکیوں کو کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور فرانسیسی معاشرے کے تمام پہلوؤں میں آزادانہ طور پر شمولیت کا مساوی حق حاصل ہے۔‘
اس بیان پر ثقافتی حقوق، اقلیتی مسائل، مذہب اور عقیدے کی آزادی سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں اور خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر ورکنگ گروپ کے ارکان نے دستخط کیے ہیں۔
دستخط کرنے والے وہ آزاد ماہرین ہیں جنہیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی طرف سے نامزد کیا جاتا ہے تاہم وہ اقوام متحدہ کی طرف سے بیان جاری نہیں کرتے۔
فرانس کے قوانین سیکولرزم پر مبنی ہیں جس کا مقصد ریاست کو مذہبی معاملات میں غیر جانبدار رکھنا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاست کی غیر جانبداری اور سیکولر قوانین کسی بھی مذہب اور عقیدے کے حقوق پر پابندی لگانے کا ٹھوس جواز نہیں ہیں۔
ماہرین نے مزید کہا کہ کسی کے بھی آزادانہ حقوق پر پابندی لگانے کا جواز عالمی قانون میں درج اہداف (حفاظت، صحت، امن عامہ، دوسروں کے حقوق اور آزادی) اور شواہد سے ثابت کیا جانا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ فرانس کو عدم برداشت اور شدید تعصب کے ماحول میں مساوات اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے لیے حجاب پہننے والی خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات کرنے چاہئیں۔