
ہماری وادی میں خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ موجودہ نوجوانوں کو یہ نہیں سکھایا گیا کہ زندگی کے مسائل سے کیسے نمٹا جائے۔ انہوں نے زندگی کے تصور اور اس سے متعلق اتار چڑھاؤ کو نہیں سمجھا۔ آج کل نوجوانوں کو اپنے مسائل کا ایک ہی حل نظر آتا ہے اور وہ ہے خودکشی۔ بات یہ ہے کہ وہ زندگی کی لڑائیاں لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور زندگی میں برے حالات کا سامنا کرنے کے لیے اتنے مضبوط نہیں ہیں۔ نوجوان باہر نکلنے کا راستہ تلاش کیے بغیر امید کھو بیٹھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوانوں کو زندگی میں مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی زندگی ختم کر لیں گے؟ یہ دریا کے پل ہماری وادی کی خوبصورتی دیکھنے کے لیے ہیں خودکشی کرنے کے لیے نہیں۔ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ لوگ انسانی جان کی قدر کیوں نہیں سمجھتے۔ ایک شخص نہ صرف خود کشی کر کے اپنی جان لے لیتا ہے بلکہ جو خاندان پیچھے رہ جاتا ہے اسے اس واقعے کے تمام نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ ان کی امیدیں دم توڑ جاتی ہیں۔ سوپور کی ایک نوعمر لڑکی نے دریا میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔ لاش ابھی تک نہیں ملی۔ خاندان اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھنے کو ترس رہا ہے۔ وہ کئی دنوں سے نہیں سوئے ہیں اور ماں اپنی بیٹی کو واپس لانے کے لیے آنسو بہا رہی ہے۔ کیا یہ اس ماں کے ساتھ ظلم نہیں جس نے اسے نو ماہ تک پیٹ میں رکھا؟ ماں نے اپنی پرورش کے لیے سب کچھ قربان کر دیا۔ ماں کی محبت کے برسوں پلک جھپکتے ہی ضائع ہو گئے۔ کیا لڑکی کا یہ حق نہیں تھا کہ وہ اپنی ماں سے مسائل پر بات کرے تاکہ وہ ان سے نمٹ سکے۔لڑکی اپنی ماں کے سامنے اپنا دل کھول سکتی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ چھوٹی سی مشاورت سے اسے بچایا جا سکے۔ ہمارا دل ماں کے پاس جاتا ہے جس نے دل کھو دیا ہے۔ لوگوں کو خودکشی کرنا آسان لگتا ہے لیکن وہ دوسروں کو جو تکلیف پہنچاتے ہیں وہ دل دہلا دینے والا ہوتا ہے۔ جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار بھی معاشرہ ہے۔ ہم اسی دنیا میں رہتے ہیں اور پھر بھی دوسروں کی فکر کرنا بھول جاتے ہیں۔ ہمیں کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ کوئی ایسا ضرور ہے جسے ہماری ضرورت اس وقت تک ہو جب تک کہ زندگی ختم نہ ہو جائے۔ لوگ اپنی زندگی میں اس قدر مشغول ہیں کہ وہ یہ کہنے کی بھی پرواہ نہیں کرتے کہ آپ کیسے ہیں؟ تین الفاظ کا یہ چھوٹا سا جملہ اداس لوگوں کی زندگی میں بڑا فرق لا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سطر سن کر ایک شخص ان تمام مشکلات کو نکال دیتا ہے جن سے وہ گزر رہا ہے۔ تب ہم اپنی حیثیت سے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔جب بھی کوئی ہم سے بات کرنا چاہے تو اس شخص کو کبھی نظر انداز نہ کریں۔ آپ کبھی نہیں جانتے کہ ان کے دل میں کیا بوجھ ہو سکتا ہے۔ ہمیں ہر ایک کی مدد کرنی چاہیے تاکہ یہ واقعات رونما نہ ہوں۔ تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کے لیے ایسے مشیر رکھیں جو ان کے دماغ کو پڑھ سکیں اور انھیں زندگی میں مشکلات کو شکست دینے کا طریقہ سکھائیں۔ انتظامیہ کو ان ندیوں کے پلوں پر حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ لوگ خودکشی نہ کریں۔
