• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم رائے

  آہ! پروفیسر عبدالغنی ازہری:  شہر میں اِک چراغ تھا نہ رہا

Online Editor by Online Editor
2023-01-28
in رائے
A A
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر: سہیل سالمؔ

27 اگست 2015 کی بات ہے جب ہمارے علاقے کی ایک بر گزیدہ شخصیت حضرت مولانا نور محمد مغلو نقشبندی کا انتقال ہواجو کہ پروفیسر عبدالغنی ازہری کے شاگر د رشید تھے۔جب مولانا نور محمدمغلو نقشبندی کا انتقال  ہوا تب پروفیسر عبدالغنی ازہریہی دارالعلوم کوثر یہ ہارون  میں قیام پذیر تھے۔اپنے شاگرد رشید کے جنازے کی امامت خود پروفیسر صاحب نے کی جو کہ مل کھاہ  میں ادا کیا گیا۔  اسی جنازے میںپروفیسر عبدالغنی ازہری کے نٰورانی چہرے کو دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی نیر آپ کو قریبی سے دیکھا بھی اور سنا بھی۔پھر اس کے بعد ان کی چند کتابوں کا مطالعہ کرنے کی ایک ادنی سے کوشش بھی کی۔پروفیسر عبدالغنی ازہریَ ؔکا اصلی نام عبدالغنی الشاشی ہے۔ان کا تعلق پونچھ کے مشہورعلاقے مینڈھرسے ہیں ۔22 ستمبر1922کو مینڈھرمیں تولد ہوئے۔ ابتدائے تعلیم کی شروعات دینیات سے کی جو کہ پونچھ میں ہی حاصل کی۔1943 میں پروفیسر عبدالغنی ازہری نے دارلعلورم دیوبند سے مولوی فاضل ور عالم کی سنداعلیٰ نمبرات سے حاصل کر نے کے بعد 1966 میں جامع ازہریا مصر سے علم حدیث میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند بھی اپنے نام کی۔پروفسیر عبدالغنی نے ازہری نے مدینتہ العلوم حضرت بل میں بحثیت عربی کے استاد بھی اپنے فرائض انجام دئیے ہیں۔اس کے بعد پروفیسر عبدالغنی کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اسی شعبہ سے بحثیت صدر 1997 میں سبکدوش ہوئے۔پروفیسر عبدالغنی ازہری کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں قدیم تاریخ گجر،نور عرفان،مالا بد منہ اور گلزار معرفت وغیرہ قابل ذکر ہے۔‘‘قدیم تاریخ گجر‘‘ میں پروفیسر عبدالغنی ازہر نے گجر قوم کی تاریخی اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔’’نورعرفان‘‘ میں پروفیسر صاحب نے تصوف کے ساتھ ساتھ نقشبندی سلسلے کی ترتیب کو خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا۔’’ مالا بد منہ‘‘  جو کہ میر سید علی ہمدانی کی کتاب کا ترجمہ میں جس  میں پروفیسر عبدا لغنی ازہری نے اللہ کے مختلف ناموں اور صفات کی وضاحت کی ہے۔پرفیسر عبدالغنی نے پنجابی  اور گوجری  میں شعر و شاعری بھی کی ہے جس کو ثبوت ان کا شعری مجموعہ’’ معرفت گلزار ‘‘ ہے ۔اس مجموعہ میںپروفیسر عبدالغنی ازہری نے اللہ تعالی اور رسول اللہﷺ کے ارشاد کو شعری جامہ پہنا کر لوگوں کو حق کی جانب توجہ مبذول کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے کیونکہ  اللہ کے نبی پاکﷺنے قدم قدم پر اپنی امت کے ہر فرد کی رہبری ا و رہنمائی فرمائی ہے۔اور یہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی انسان نبی پاکﷺ کے بتائے طور طریقوں کو اپنی عملی زندگی میں برپا کرتا ہے اور اسی طرح اپنی زندگی گزار تاہے جیسے کہ آپﷺنے ہدایت فرمائی ہے تو یقینا ایسا  انسان کامیاب ہے۔  لہذا ہر دور کے مسلمانوں کی کامیابی اور کامرنی اسی میں ہے۔بقول ازہریؔ
لکھاں جگ تے  آئے پیغمبر تبلغ کارن
اللہ پاک بندیاں  تے ہے مہر بان جانی
شاشیؔہرازاں قوماں دنیاتے  بتاہ ہوئیاں
جہڑیاں  ہوئیاں   سن  نافر مان جانی
بقول مولانا عبدالرشید گورسی:’’بہر حال حضرت علامہ مفتی عبدالغنی ازہری ؔ کے نصیحت آموز منظوم صوفیانہ کلام جو قارئین کو بآوازبلندتزکیہ نفس کی دعوت دے رہاہے۔اصلاح انسانیت کے لئے ایک موثر سبق آموزپیغام بھی ہے۔ذی شعور عوام الناس کو دلی احساس کے ساتھ اپنانے کی ضروت ہے،کیونکہ تقوی اور تزکیہ نفس توشہ آخرت ہے۔‘‘(معرفت گلراز۔ص۔9 )
پروفیسر عبدالغنی ازہری نے دینیات کو فروغ دینے میں اور گجر قبائل کے بچوں کو علم نافعہ سے آراستہ کرنے کے لئے ریاست میں بھی اور بیروں ریاست میں بھی کئی اہم علمی مراکز کی بنیاد بھی رکھ لی ہے ۔ مکتبہ انوارالعلوم کوکرناگ1950،دارالعلوم کوثریہ ہارون1990 ،دا رالعلوم شاہ ولی اللہ اننت ناگ2003 اور دارالعلوم نظامیہ مدینت الاسلام بادشاہی باغ سہارنپور ان کے قائم شدہ ایسے علمی مراکز ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں بچے تعلیم کے نور سے آراستہ ہو کر اپنی زندگیوں کو سنوراتے ہیں۔سرکری ملازمت سے سبکدوشی کے بعد پروفیسر عبدالغنی نے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ ہندوستان کے مختلف  علاقوں میں علم وحدیث کے چراغ جل کر روشنی پھیلائے۔  پروفیسرعبدالغنی ازہری ایک ہمہ جہت  اور روحانی صفات سے مزین شخصیت تھی،وہ مفتی تھے،عالم بے مثال تھے،ان کے علمی اور روحانی سفرکا احاطہ کرنا میرے بس کی بات ہی نہیں  ہے۔پروفیسر عبدالغنی ازہری مفسر قرآن ہیں،شارح احادیث ہیںشاعرہیںاور مورخ بے بدل ہیں۔ وہ محسن تھے،عام لوگوں کے دکھ درد میں ان کے معالج تھے،ان کی علمی خدمات، دینی خدمات اور سماجی خدمات کو کون نظر اندار کر سکتا ہے۔ہندوستان کی مختلف جامعاتً میں ازہری صاحب کی زندگی اور کارناموں پر تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ ازہری صاحب کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر سید مقبول لکھتے ہیں:’’مجھے انتہا خوشی ہوئی کہ کشمیر یونیورسٹی کے عالم اور عربی و دینی علوم کے ماہر استاد مفتی عبدالغنی ازہری صاحب جو شعبہ عربی میں استاد ہیں اور میرے رفیق رہے ہیں ا نہوں نے بڑی محنت ،کاوش، اور جاں فشانی سے ایبریا گرجستان پر ایک مدملل و محقق کتاب تیار کی ہے۔اس کتاب کے پڑھنے سے انداہ  ہوتا ہے کہ یہ قبائل اپنے زمانے  میں کتنی ہمیت کے حامل تھے اور سیاست و مذہبیت میں ان کا کتنا اہم رول رہا ہے۔‘‘(قدیم گجر تاریخ۔ص۔23 )    ؎
وہ ایسا عرفان و آگہی کا سمندر تھا جس نے کئی صحراں کی پیاس بجھا کر کے ان کی زندگیوں کو قرآن و حدیث سے تر تازہ رکھا  ۔وہ جس اعلیٰ علمی آسمان کے روشن ستارے تھے ۔مولانا عبدالقادر رائے پوری ،سید رسول شاہ نقشبندی اور حضرت کوثر علی شاہ افغانی کی صحبت میں رہ کر انھیں عرفان و آگہی کی پرورش ہوئی اور جو کچھ انھیں ان باغ وبہار ہستیوں کی صحبت میں رہ کر موصول ہوا تھا وہ سب ان کے اعمال و افعال  سے ظاہر ہو جاتا تھارلیکن ان کی نورانی شخصیت میں کئی اور بھی اوصاف  پائے جاتے  تھے  جو ان کے صرف اپنے تھے۔ جو انھوں نے خود محنت،لگن اور ریاضت کر کے حاصل کئے تھے۔ان کا سادہ مزاج،نرم گفتگو ،حلیمی، حق شناسی کے علاوہ محبت ، ،اخوت  ،شجاعت اور صداقت سے لبریز وہ ایسی روحانی شخصیت تھی ، جن کے بہت سارے گرویدے تھے۔ان کا وجود ایک اسیا پھل دار درخت تھا جو ہر موسم میں پھلوں سے پر رہتا تھا۔ جس کی شاخوں پر پرندے آشیانے بھی بناتے تھے ،چہچہاتے بھی تھے اور ان کے سایے میں اپنی زندگی کے سفر کی شروعات بھی کرتے تھے۔ ۔ان کی عظمت ان کے اپنے قبیلے میں بھی اور قبیلے کے باہر بھی ایک نگینے کی حیثیت  رکھتی تھی اور جہاں بھی جاتے  تھے وہاں اپنے کلام معرفت سے شناخت قائم کرتے  تھے۔ اپنی علمی قوت کو توانائی بخشنے کے لئے ازہری صاحب نے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر بھی کیا ہے۔
پروفیسر عبدالغنی ملت اسلامیہ کے غم خوار تھے ،ہر اک کے ساتھ شفقت آمیزی کے ساتھ پیش آتے تھے  ، اپنے زندگی میں انھوں نے سختیوںکو بھی گلے لگائے ہیں۔ ان کے شاگردوں ،خیر خواہوں اور مریدوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔پروفیسر صاحب ،صاحب بصیرت استاد تھے۔انھیں مختلف ربانوں کے علاوہ  طب سیرت ،تاریخ،سیاست ، اور مذہبیات پر بھی عبور حاصل تھاجس کی وجہ سے ان کے فہم داک میں وسعت پائی جاتی تھی ۔بلاشبہ وہ ایک بڑے عالم اور بڑے انسان کے منضب پر فائذ تھے۔بڑا عالم یا بڑا نسان اپنے قول و فعل سے اپنے صفات کی تعریف خود نہیں کرتا ہے بلکہ ان کے افکار و اعمال ہی انھیں اعلیٰ منصب عطا کر تے ہیں۔ انھوں نے کشمیر میں اور کشمیر سے باہر  ہمیشہ غریبوں ،محتاجوں اور مفلسوں کی دل کھول کر مدد کی ہے۔پروفیسر صاحب ہمیشہ ان کا سہارا بننے کی کوشش کرتے تھے۔اللہ تعالی نے پروفسیر صاحب کو روحانی توانائی سے بھی سر شار کیا تھا اور بہت سارے لوگوں نے اس سے فیض بھی حاصل کیا ہے۔دبستان کشمیر کا یہ روحانی فرزند ، مفسر،محدث، ڈاکٹر ،عالم ، مفتی ، واعظ ،مورخ،شاعر اور عرفان و آگہی کا روشن چراغ 19 جنوری 2023کو مختصر علالت کے بعد سہارنپور میں اس جہاں فانی سے پرواز کر گئے اور اپنی ساری روشنی قرآن و حدیث کی نذر کر کے اصلی گھر کی اور روانہ ہوگیا۔بقول حالی ؔ   ؎
ایک  روشن  دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اِک چراغ تھا نہ رہا

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

 تغافل کیوں؟؟

Next Post

چلہ کلاں کے آخری دنوں کے دوران بھاری برف باری کی پیش گوئی

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
عمر عبداللہ کی حلف برداری آج، جانیں کس کس کو ملے گی کابینہ میں جگہ

عمر عبداللہ کا "جموں جموں”

2024-12-18
عمر عبداللہ: رکن پارلیمنٹ سے دوسری بار وزیر اعلیٰ بننے تک، سیاسی سفر پر ایک نظر

ایل جی کا حکمنامہ۔۔۔دو وائس چانسلر وں کی معیاد میں توسیع

2024-12-17
ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن

ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن

2024-12-15
انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل

انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل

2024-12-11
Next Post
برف و باراں سے سردی کی لہر تیز، گلمرگ میں شبانہ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے درج

چلہ کلاں کے آخری دنوں کے دوران بھاری برف باری کی پیش گوئی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan