از:قاضی سلیم الرشید
شمیم احمد شمیم ایک بہترین ادیب اور قلمکار تھے۔ ان کی زیر نگران اخبار آئینہ اپنے زمانے(ھمارے زمانے ) کا بہترین ادبی شاہکار مانا جاتا تھا۔حق تو یہ ھے کہ آج تک کشمیر وادی سے ایسا ہفت روزہ اخبار شائع نہ ہوسکا۔ اخبار اگرچہ عموما” آٹھ صفات پر مشتمل ہوا کرتا تھا اور ایک قاری زیارہ سے زیادہ دو ایک دن تک اس کو پڑھنے کےلئے کھینچ سکتا تھا لیکن اس کی ادبی مٹھاس برابر ہفتہ تک اخبار کی ورق گردانی کرواتی تھی اور جب اگلا پرچہ شایع ہوکر بازار میں آتا تو پرانے پرچے کو الماری میں سنبھال کر رکھا جاتا تھا تاکہ آیندہ کسی بھی وقت الماری سے نکال کر پھر سے پڑھا جاتا تو واللہ وہی پہلا جیسا مزہ آتا۔ اس سے قطع نظر کہ مرحوم کا مذہبی عقیدہ کیا تھا، سیاسی نظریہ کیا رہا وہ بیشک ایک بلند پایہ کے ادیب، اعلی سخن ور بہترین مقرر ، انتہائی درجہ کے ذہین اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ مرحوم زندگی کے آخری ایام میں کینسر کی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہو ۓ ئےتھے۔ مرض کی شدت بھانپ کر ڈاکٹروں نے رائے دی تھی کہ زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک زندگی ان کا ساتھ دے سکتی ھے۔ مرحوم کے یہ الفاظ کہ” عام طور ہرانسان اس چیز سے بےخبر ہوتا ھے کہ کب اس کی موت آ ئی ۓ۔ مجھے ڈاکٹر وں نے تین مہینے کی مہلت کا اشارہ دیا کہ شاید میں مزید تین مہینے تک زندہ رہ سکتا ہوں۔لہذا میں خوش قسمت ہوں کہ میں اپنی زندگی کی مہلت سے آگاہ کیا گیا ہوں اور اللہ تعالی نے مجھے تین مہینے کا عرصہ دیا تاکہ میں اللہ عزوجل سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہوں”۔
اب سمجھا جا سکتا ھے کہ اللہ جس سے چاہیے مغفرت کر سکتا ھے۔ انت بھلا سو بھلا
