تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
کشمیر کے سیاحتی مرکز گلمرگ میں G20 ممالک کا اجلاس منعقد ہورہاہے ۔ یہ اس نوعیت کا پہلا اجلاس ہے ۔ اس اجلاس کو کامیاب بنانے کے لئے ملک کی پوری مشنری متحرک ہے ۔سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے ہیں ۔ اجلاس کی کامیابی کے حوالے سے کسی طرح کے شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے ۔ سرکار کا کہنا ہے کہ اجلاس کے لئے ہر طرح کے انتظامات کئے گئے ہیں ۔ سرینگر سے لے کر گلمرگ تک راستے کو اپ گریڈ کرکے دلہن کی طرح سجایا گیا ہے ۔ مہمانوں کے آرام و آسائش کی تمام سہولیات مہیا رکھی گئی ہیں ۔ گروپ ٹونٹی کے ایسے اجلاس ہر سال منعقد ہوتے ہیں ۔ امسال اس اجلاس کے لئے ہندوستان بطور ایک میزبان ملک منتخب کیا گیا ہے ۔ دہلی سرکار نے اجلاس سرینگر میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ سرکاری حلقوں کا خیال ہے کہ اجلاس سے کشمیر میں عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے امکانات بڑھنے کے علاوہ یہاں کی سیاحت کو فروغ ملے گا ۔ ایسے اجلاس یقینی طور میزبان ملک کے لئے بہت ہی کارآمد ہوتے ہیں ۔ اس سے ملکی شناخت اور ساکھ کے علاوہ معاشی فوائد ملنے کے بھی امکانات ہوتے ہیں ۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے اجلاس کا انعقاد پورے ملک کے لئے عزت بخشنے کا باعث ہوگا ۔
گلمرگ میں عالمی اجلاس کشمیر میں اس طرح کے اجلاس کا پہلا موقع نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے پہلے بودھ بھکشووں کا ایک عالمی اجلاس ہارون سرینگرمیں منعقد ہوا ہے ۔ یہ اجلاس مبینہ طورکنشکا دور میں منعقد کیا گیا تھا ۔ اس طرح کی پہلی عالمی کانفرنس سری لنکا میں اور دوسری کانفرنس سرینگر میں بلائی گئی تھی ۔ سرینگر اجلاس کو سری لنکا اجلاس سے زیادہ اہم مانا جاتا ے ۔ اجلاس کے حوالے سے کئی تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی تاریخ کے تناظر میں یہ اجلاس اپنی نوعیت کا منفرد اجلاس رہا ہے ۔ اس اجلاس کی مدد سے دنیا کو ایک نئے دھارے میں ڈالنے میں مدد ملی ۔ بودھ مت کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کی راہیں کھل گئیں ۔ بودھ مت کو جو عالمی شہرت ملی وہ اسی اجلاس کا نتیجہ تھا ۔ بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہارون اجلاس میں بودھ مت کے بنیادی اصول و ضوابط تحریری شکل میں مرتب کئے گئے ۔ ایسے اصول وضوابط کے کتبے محفوظ کئے گئے جو لداخ کے پہاڑوں میں انیسویں صدی میں دریافت کئے گئے ۔ انہیں کشمیر کے میوزیم میں رکھا گیا ۔ بعد میں یہی کتبے دہلی منتقل کئے گئے جہاں وہ آج تک محفوظ ہیں ۔ اس طرح سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر بہت پہلے سے عالمی توجہ کا مرکز رہاہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیر کے عوام از خود ایسے اجلاسوں سے لاتعلق رہتے یا رکھے جاتے ہیں ۔ کشمیر میں ایک ایسا مزاج ترتیب پایا ہے جہاں اپنی ذات کے علاوہ کسی اور شے کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے ۔ کشمیر کا ہر فرد اپنے تیار کئے گئے خول میں رہتا ہے جہاں اس کو اپنا پیٹ پالنے کے سوا کسی چیز کی فکر نہیں ۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ ایک سیاحتی خطے میں رہنے کے باوجودلوگ ایسی تفریحات سے خود پوری طرح سے لاپروا ہیں ۔ لوگ چاہتے ہیں کہ سیاح یہاں بڑی تعداد میں آئیں ۔ لیکن خود ان کا رویہ یوں ہے کہ بانہال سے پار بغیر کسی ذاتی مقصد کے جانے کی کبھی کوشش کرتے نہ ایسی کوئی خواہش رکھتے ہیں ۔ یہاں کے عوام کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کشمیر کا ماضی بڑا شاندار رہا ہے ۔ یہاں کی ایک عظیم تاریخ رہی ہے اور کشمیر ثقافت طویل تاریخ کی دین ہے ۔ آج جو عالمی کانفرنس گلمرگ میں ہورہی ہے لوگوں کو بس لالچوک کے سجائے جانے اور مہمانوں کے کاروانوں کے گزرجانے کا علم ہے ۔ ان کی دوسری کسی سرگرمی سے انہیں سرے سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ دوسرے علاقوں کے لوگ ایسے اجلاسوں سے مالی اور معاشی فائدے سمیٹنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ کشمیر کا کوئی فرد اس سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہتا ہے ۔
اسلام نے سیر و سیاحت کو عبادت کا حصہ بنایا ہے اور عالمی کانفرنسوں کی اہمیت پہلے دن سے واضح کی ہے ۔ حج ایک ایسی عبادت ہے جو اپنے اندر ایک عالمی رجحان کی پاسدار ہے ۔ اسلام سے پہلے یہ رسم جاری تھی ۔ اسلام نے اس کی اہمیت اور افادیت وک بحال رکھا ۔ بلکہ اسے مزید اجاگر کرنے کے لئے حج کو اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں شامل کیا ۔ اس طرح سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام ایسے اجلاسوں کے انعقاد کو پوری انسانیت کے لئے فلاح و بہبود کا ضامن قرار دیتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اپنی دعوت کا آغاز کیا تو حج کے لئے آنے والے قافلوں کو تبلیغ کا ہدف بنایا ۔ اس پر کفار مشتعل ہوئے اور دعوت کو روکنے کے اقدامات کئے ۔ تاہم وہ اس میں ناکام رہے اور اسلام کی تعلیمات حج اور تجارتی قافلوں کی مدد سے قرب وجوار میں پھیلی ۔ بلکہ مدینہ پاک جہاں بعد میںپہلی اسلامی ریاست وجود میں آئی حج کے دوران ہی اسلامی تبلیغ کا مرزک بن گیا ۔ مدینہ سے آئے کئی شریف النفس افراد یہیں اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوئے ۔ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ایسے اجتماعات ہمارے لئے شجر ممنوع بن گئے ہیں ۔ ایسے اجلاس اور قافلے یہودیت اور کفر کا مرکز قرار دئے جاتے ہیں ۔ ان سے لاتعلق رہنا اصل اسلام قرار دیا جاتا ہے ۔ اسلام ایسے لوگوں کی تحویل میں ہے جو خود ایسے اجتماعات کی اہمیت سے واقف ہیں نہ کسی اور کو ان کے نزدیک آنے دیتے ہیں ۔ ان کی بات چلے تو وہ ان کی بات کرنے پر کفر کا فتویٰ جاری کریں گے ۔ ی لوگ خود ایسے اجلاسوں کے متمنی ہیں نہ ان کے اندر کوئی رول ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ لیکن یہ دعویٰ ضرور کرتے ہیں کہ جلد ہی اسلام کو پوری دنیا پر غالب کرنے میں کامیاب ہونگے ۔ یہ محض ایک خیال ہے اور دن میں خوب دیکھنے کے مترادف ہے ۔ ایسے ملائوں کی دسترس سے آزاد ہوئے بغیر اسلام کو ترقی مل سکتی ہے نہ مسلمانوں کے تفاخر میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔
