از۔محمد انیس
جب سید احمد شہید بریلویؒ ( متوفی 1830ء ) کو دہلی میں معلوم ہوا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی فتوحات کا سلسلہ پنجاب سے افغانستان اور سرحد کے مسلم علاقوں تک دراز کرلیا ہے’ تو انہوں نے اس سے جہاد کو ٹھانا ۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مقصد مسلمانوں کو سکھوں کے تسلط سے آزاد کرانا اور اس کے بعد وہاں اسلامی خلافت قائم کرنا تھا تاکہ شریعت کا نفاذ ہوسکے۔ حالانکہ پچھلے ساڑھے چھ سو سالوں سے ہندو اکثریت والے ہندوستان میں مسلمان بھی تخت نشین تھے اور اب دہلی میں مغل سلطنت اپنی آخری سانسیں گن رہی تھیں۔ جہاد کیلئے سید صاحب کو مطلوب تعداد تک افراد فراہم نہیں ہوئے۔ ان کے ساتھ مجاہدین اور مریدان کی تعداد آٹھ ہزار سے زیادہ نہ تھی جبکہ رنجیت سنگھ کی فوج کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ بعض لوگوں نے اس غیر متوازی تعداد پر سوال اٹھایا تو دلیل کے طور پر جنگ بدر کے 313 کی اعداد کی مثال دی گئی کہ کیا ہم اتنے بھی نہیں ہیں۔ بہرحال سید صاحب 1825ء میں اپنے لشکر کے ساتھ د ہلی سے روانہ ہوئے اور پشاور کےبعض علاقوں کو فتح کرلیا ۔ وہاں آپ نے امیرالمومنین کا لقب اختیار کیا۔ تاہم ثقافتی اور لسانی فرق کی وجہ سے آپ وہاں قبائلی سرداروں کے بیچ زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر پائے۔ کچھ لوگوں نے آپ کو باہر کا آدمی بتاکر تنقیدی لہجہ اختیار کیا ۔ بہرحال پشاور میں چند سال کی حکمرانی کے بعد آپ نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو قدیم طرز پر پیغام دیا کہ مسلمان ہوجاؤ یا جزیہ دو یا پھر مقابلہ کرو۔ اس کے نتیجے میں 6 مئی 1831ء کو بالاکوٹ میں جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کےسپاہیوں سے معرکہ پیش آیا تو سید صاحب کے ساتھ مجاہدین کی تعداد گھٹتےگھٹتےچھ سو (600) تک آگئی جبکہ محاذ جنگ میں رنجیت سنگھ کی خلصا آرمی کی تعداد دس ہزار تھی۔ اس جنگ میں ایک ہی دن میں بلکہ چند گھنٹے میں ہار جیت کا فیصلہ ہوگیا۔ سید صاحب اور شاہ اسماعیل دہلوی شہید ہوگئے۔ (اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے)۔
اسی طرح کئی مثالیں ہیں جب مسلمان 313 کا حوالہ دیکر بڑی فوج سے ٹکراگئے ہیں اور انجام کار شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فی زمانہ کشمیر میں یہی پوزیشن ھے جہاں چھ لاکھ ہندوستانی فوج کے مقابلے میں چند ہزار عسکریت پسند پچھلے تین دہائیوں سے چھاپہ مار جنگ میں مصروف ہیں۔ اب تک لاکھوں مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ ان شہیدوں میں زیادہ تعداد ان معصوم افراد کی ہے جو اس جنگ میں شریک نہیں ہیں۔ یہاں بھی 313 کے نمبر کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اب ہم اس نمبر کی معنویت پر غور کریں گے۔
غزوۂ بدر میں قریش کے ایک ہزار لڑاکو کےمقابلے میں اہل ایمان کی تعداد 313 تھی ۔ اکثر جذباتی قسم کے لوگ اس قلیل تعداد کا حوالہ دیتے ہیں کہ اس جنگ میں مسلمانوں کی کوئی تیاری نہیں تھی اور نہ مناسب تعداد تھی۔ پھر بھی مسلمانوں نے فتح حاصل کی۔ ایسے نتیجے اخذ کرنے والے لوگ قرآن کی آیتوں پر غور نہیں کرتے۔ قرآن سے واضح طور پر ثابت ہے کہ جب یہ اطلاع ملی کہ مکہ سے قریش کی ایک ہزار مسلح فوج مدینہ کی طرف آرہی ہے تو مسلمان اپنی عدم تیاری اور قلیل تعداد کی بنا پر ان سے مڈبھیڑ کیلئے راضی نہ تھے ( سورہ انفال: 6)۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کے معرفت انہیں یہ خوش خبری دی کہ میں تمہاری مدد کیلئے ایک ہزار فرشتے بھیجتا ہوں(سورہ انفال 9). اللہ تعالیٰ کی اس یقین دہانی کے بعد مسلمان کمزور حالت میں نہیں رہے بلکہ تمام طاقتوں سے زیادہ طاقتور ہوگئے اور انہیں واضح فتح حاصل ہوئی ۔
قرآن میں مسلمانوں اور کفار کے بیچ طاقت کا تناسب پہلے ایک اور دس کا تھا لیکن آخری طور پر اسے 1:2 پر قائم کیا گیا ھے ( سورہ انفال، آیت 66)۔ یعنی کفار اگر دوگنا ہو تو جنگ کی جائے گی’ ورنہ رخصت کا اوپشن اختیار کیا جائے گا۔ اسی بات کو ایک حدیث میں اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
” مومن کیلئے یہ مناسب نہیں کہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ پوچھا گیا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو کیسے ذلیل کرسکتا ہے ۔ فرمایا کہ وہ ایسی بلا کا سامنا کرے جس سے نمٹنے کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو” ( مشکوۃ، حدیث نمبر 2503).
اس حدیث سے رہنمائی ملتی ہے کہ جہاں مسلمان کمزور حالت میں ہوں وہاں ممکنہ طور پر قتال سے گریز کیا جائے گا۔ اسی فطری اصول کے پیش نظر رسول اکرم ؓ کے ساتھ ہجرت کا واقعہ پیش آیا اور حضرت موسیٰؑ کے ساتھ خروج کا ۔ ورنہ مکہ میں قریش کے ساتھ اور مصر میں فرعون کے ساتھ جہاد کرنے میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ واقعہ یہ ے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کا نظام اسباب و علل پر موقوف رکھا ھے۔ اس بنیادی factor کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ اب اس نکتہ کو ہم عہد نبوی کی ایک مثال کے ذریعہ سمجھیں گے۔
جب غزوۂ موتہ کیلئے مسلمانوں کا لشکر معان کے مقام پر پہنچا تو وہاں معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی صرف تین ہزار فوج کے مقابلے میں رومیوں نے سرحد پر دو لاکھ فوج جمع کرلی ہیں۔ اس وقت موبائل نہیں تھا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کی جاتی کہ آگے بڑھنا چاہئے یا نہیں۔ لیکن عبداللہ بن رواحہ ؓ نے تقریر کرکے مسلم لشکر کو پیش قدمی کی نصیحت کی ۔ اس کے بعد جب موتہ کے مقام پر جنگ شروع ہوئی تو یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے تینوں کمانڈرز زید بن حارثؓ، جعفر بن طالبؓ اور عبداللہ بن رواحہ ؓ سمیت بڑی تعداد میں مسلمان شہید ہوگئے۔ یہ دیکھ کر خالد بن ولید نے علم سنبھالا اور اسلامی لشکر کو اس غیر متوازی اور مشکل صورتحال سے نکال لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جدوجہد میں خالد سیف اللہ کی بارہ تلواریں ٹوٹ گئیں۔ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ جب یہ لشکر واپس مدینہ آیا تو مدینے میں بعض لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا کہ دیکھو، یہ جہاد سے بھاگ آئے ہیں۔ یہ لوگ بھگوڑے ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ بھاگ کر نہیں آئے ہیں بلکہ ان شاءاللہ پھر جانے والے ہیں۔
