تحریر : غلام حسن ڈار
؎آسماں اتنی بلندی پے جو اتراتا ہے
بھول جاتا ہے زمیں سے ہی نظر آتا ہے (وسیم بریلوی)
؎ تن آسانی نہیں جاتی ریاکاری نہیں جاتی
میاں برسوں میں یہ صدیوں کی بیماری نہیں جاتی (سید ضمیر جعفری)
دنیا بھر میں پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور ادب۔ نثرونظم کے ذریعے جس میں خاص طور پر رسائل و جرائد اور اخبارات کے علاوہ انٹرنیٹ کی بدولت مختلف ذرائع۔ فیس بک (FB) واٹس ایپ، یوٹیوب، میسنجر، انسٹاگرام اور ٹویٹر وغیرہ پر زندگی اور زمانے کے ان گنت مسائل اور چلینجز کے حل کے لیے بے شمار موضوعات اور عنوانات پر معلوماتی مواد تخلیق ہو کر عوام و خواص کے ساتھ یکساں طور پر شیئر کیا جاتا ہے اس عمل سے جہاں دنیا میں علوم و فنون کی تشہیر و ترویج کے نئے امکانات سامنے آتے ہیں وہیں عام زندگی سے جُڑے معاملات و مسائل اور چلنجز کے حل کے لئے بھی راہیں کھل جاتی ہیں اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اب آبادی کا بیشتر حصہ ہر معاملے اور ہر نئی پرانی چیز سے واقف کار ہے لیکن اس کے باوجود بدقسمتی یہ کہ کچھ معاملات ومسائل ابھی بھی ایسے ہیں جن کی طرف بہت کم دھیان دیا جاتا ہے جس کے باعث سماج و معاشرے میں غیر محسوس طریقے سے افراد کے درمیان انوکھے اور پریشان کُن مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم آئے دن کتابوں، اخباروں، یوٹیوب، فیس بُک (FB) اور دیگر ذرائع سے مختلف ذہنی بیماریوں جیسے ڈپرشن، اینگزائٹی اور سٹریس وغیرہ سے متعلق پڑھتے، سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں پھر ہم عموماً خودکشی کے واقعات یا نشہ آور ادویات کے استعمال کر براہ راست ڈپرشن سے جوڑتے ہیں جو کہ صد فیصد اگرچہ صحیح بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اسباب و علل اور محرکات کو ایڈریس نہ کرنے کے نتیجے میں بڑے اور ناتلافی نقصانات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
اگر میری یاداشت درست ہے تو بھارتی نژاد شیوکھیرا نے اپنی مشہور تصنیف "You Can Win” میں اس امر کا برملا انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں آجکل سب سے بڑی کرائسز (crises) سیاسی سماجی یا معاشی بحران سے زیادہ روییّ کا بحران (Attitude Crises) ہے اسی بحرانی رویّے کے نتیجے میں انفرادی سطح پر بعض، عداوت، نفرت، حسد، تعصب اور ریا وغیرہ منفی جذبات جنم لے کر فتنہ و فساد، لڑائی جھگڑے اور پھر اجتماعی سطح پر جنگ و جدل کی صورت اختیار کرتے ہیں۔
بحرانی رویّے(Attitude Crises) کے شکار لوگ پہلے یا تو احساس برتری یا پھر احساس کمتری کے شکار ہوچکے ہوتے ہیں جس کی بنا پر ایسے لوگ بارہا ذاتی اور داخلی اذیتوں سے گزرتے ہیں پھر احساس برتری یا احساس کمتری میں پھنسنے کے اپنے الگ اسباب ہیں لیکن ہر صورت میں ایسے لوگ خود کے لیے بھی اور دوسروں (متعلقین) کے سخت پریشانی اور مسائل کا باعث بنتے ہیں تو سیدھے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کا رویہّ دماغی عارضے سے زیادہ شخصیتی عارضہ Personality Disorder سے ہے جس کا براہ راست تعلق نرگسیت؍ خودپسندی سے ہے۔ یہ نرگسیت (خودپسندی) کچھ تو جینیاتی (Genetic) ہوتی ہے اور کچھ گردوپیش میں اس کے ساتھ رہ رہے لوگوں عموماً والدین اور بڑوں سے حاصل شدہ خصلت؍ وصف اس میں بھی دھیرے دھیرے اثر پذیر ہوتی ہے۔ لیکن اکثر ماہرین اسے ایک اکتسابی عمل ہی قرار دیتے ہیں جو کہ بعد میں شخصیت کا لازمی جُز بن جاتا ہے۔
بی بی سی کی جولین جنکنز کے خیال میں نرگسیت یا خودپسندی کیا ہے اُن کا کہنا ہے:
کالنز انگلش ڈکشنری کے مطابق اس کا مطلب ہے اپنے آپ کو خاص طور پر اپنے روپ میں غیر معمولی دلچسپی اور اس سے متاثر ہونا۔ یہ اپنی اہمیت اور صلاحیتوں کے حد سے بڑھے ہوئے احساس اور اپنے آپ میں دلچسپی کا دوسرا نام ہے۔ خودپسندی کے کچھ ایسے پہلو ہیں جو کسی حد تک شاید ہم سب میں موجود ہیں لیکن زیادہ تر معاملوں میں یہ ایک بیماری کی شکل میں سامنے آتی ہے جسے این پی ڈی Narcissistic Personality Disorder کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ خیال ہونا کہ آپ بہت اہم ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ نرگسیت یا خودپسندی کے مریض کو پہچانا کیسے جاتا ہے؟
ایک برطانوی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ٹینیسن لی کے مطابق اس بیماری کو پرکھنے کے نو نکات ہیں جو پوری دنیا میں رائج ہیں۔ خودپسندی کا مریض قرار دیئے جانے کے لیے ان نو نکات میں سے پانچ شرائط پوری ہونی چاہیں۔
٭ اپنی اہمیت کا انتہائی احساس
٭ کامیابی اور طاقت کے بارے میں وہم ہونا
٭اپنے آپ کو منفرد اور انوکھا خیال کرنا
٭ سراہے جانے (Praise) کی حد سے زیادہ طلب
٭ہر چیز پر اپنا حق سمجھنا
٭ باہمی رشتوں میں صرف (اپنا فائدہ) اپنے بارے میں سوچنا
٭ہمدردی کے احساس کی کمی
٭ہر ایک پر رشک کرنا (Feeling Jealous)
٭ مغرور اور گھمنڈی رویے رکھنا
ڈاکٹر لی کا مزید کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس پر میڈیکل کے میدان میں ابھی زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔
تاہم ماہرین نےNPD کی پانچ قسموں کا ذکر کیا ہے:۔
(۱)Covert (خفیہ) (۲)Overt (ظاہر) (۳)Malignant (مہلک ؍کینہ پرور) (۴)Antegonistic (مخالفانہ) (۵)Communal (فرقہ وارانہ)
چنانچہ یہ اپنے آپ میں ایک وسیع اور توجہ طلب مسئلہ؍بیماری اور وضوع ہے۔ کیونکہ ایسے لوگ ہمارے اردگرد، گھر، دفتر اور دیگر اکثر جگہوں پر ضرور موجود ہیں۔ لہذا ان کے بُرے اثرات اور نتائج سے بچنے کی تدابیر کرنا ناگزیر ہے۔ واضح رہے کہ راقم اس موضوع پر پچھلے چھ برسوں سے مسلسل پڑھ رہا ہے مشاہدہ اور تجربہ سے گزر رہا ہے۔ اس لیے آگے بھی اپنے معزز قارئین کی خدمت میں اس بیماری؍مسئلے سے متعلق تحریریں سامنے لانے کی کوشش کروں گا۔ (انشاء اللہ )
