از:ناصر منصور بٹ
ہزار ہا غم و ستم لے کر یوں ہی چل دیے۔۔۔۔۔۔ بیوی بولی۔۔۔۔۔۔ او جی سنتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوہر ۔۔۔۔۔ ارے بولو تو سہی کیا مسئلہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بیوی ۔۔۔۔۔گھر واپسی پر کچھ سبزیاں اور سرسوں کا تیل پی مارک والا لانا ۔۔۔۔۔شوہر۔۔اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔ بیوی۔۔۔۔ ہاں جی ۔ ایک بات تو میں بھول ہی گئی کہ طالب جان کا کئی مہینوں کا اسکول کا فیس بقایات ہے ۔۔۔۔ اسکول والے طالب جان کو روز روز پرئر سیشن کے بعد گراؤنڈ میں کھڑا کرتے ہے ۔۔۔۔۔۔۔ شوہر ۔۔۔۔۔۔۔اثبات میں سر ہلاکر رزق کی خاطر چل دیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کئی کلوميٹر پیدل سفر کرکے بچارہ مزدور بیچ چوراہے پر کچھ اوقات تانکتا رہا یوہی کوئی امید نظر سے گزرتی تو اس امید پر کئی دوسرے مزدور ٹوٹ پڑتے اس کشمکش کی اتھل پتھل کو دیکھ کر مزدور کی امید ٹوٹ جاتی تو وہی امید بر بھی آتی آخر کار ایک صاحب ثروت ٹھکیدار نے کئی ایک دن کی دہاڑی کے لئے لے گئے ابھی کام شروع ہی کیا تھا کہ آسمان سے آگ کے شولے برس نے شروع ہوئے شدت گرمی کا حال یہ تھا کہ کپڑوں کے نیچے سے گویا بارش کی بوندے ٹپک رہی ہوں ۔ کچھ آرام کرنا چاہا یوں ہی سر اٹھایا سامنے ٹھکیدار کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے مخالف سمت نظر ٹکائے ہوئے تھے ۔۔۔۔ مزدور نے اپنی آکھیں نیچے کی اور کردی کہ کہیں ٹھکیدار کے زیر عتاب نہ ہو پیشانی سے پسینا پونچھتے اوف اوف کی لمبی سانس چھوڑے ۔ دوبارہ اپنے کام سے کام میں مشغول ہو گیا ۔۔۔مجبوری کا مارا مزدور بیچارا کرے بھی کیا ۔ مزدور کو بھی اپنی بیٹ میں دوزخ تو بھرنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ مسا مسا دن کا ایک تہائی ڑل گیا قریب بارہ بج چکے تھے گرمی کی شدتِ تپش اس قدر شدید تھی کہ زمین پر نظریں گاڑنے سے آنکهوں میں دھندلاپن اور دن میں تارے دکھائی دینے لگے ۔ سورج کی گرماہٹ جیسے نانوائی کی تندور سے آگ کے شولے۔۔۔ ہفتے کا آخری دن تھا مزدور کی آس تھی کہ آج مالک ہفتے کی مزدوری واگزار کرے مزدور بیچارہ گھر کے تمام اخراجات کا حساب کیا ہوا تھا قریب تھا کی دن کا آخری حصہ ڈل جائے مزدور مزدوری سے فارغ ہوجائے مالک جو دن بر مزدور کی نگرانی کئے ہوئے تھا کہ عین وصولی کی وقت مزدور کی آکھوں سے اوجل ہوگیا۔ مزدور کچھ وقفہ انتظار کرتا رہا لیکن مالک صاحب اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ عیش و آرام میں مشغول ہوگیا مزدور بیچارہ مزدوری سے نڑہال و پریشان ذہنی بیچارگی میں مبتلا کرے بھی تو کرے کیا ۔ گھر پہنچتے اہل و ایال کی ضروریات طلبی نے تو بیچارے مزدور پر ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہے دوبارہ وہی آس وہی امید لیکر اپنے سفر پر رواں دواں اس کے سوا چارہ بھی کیا امید پر ہی تو دنیا قائم ہے ۔۔۔۔
