• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
اتوار, جون ۲۹, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم رائے

آن لائن گیمز سے اپنے بچوں کو بچائیں

Online Editor by Online Editor
2024-03-02
in رائے
A A
آن لائن گیمز  سے اپنے بچوں کو بچائیں
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:ندیم خان

بھارت سمیت دنیا بھر میں پب جی، فری فائر اور دیگر آن لائن گیمز کے منفی اثرات کی لمبی داستان!
ماں باپ کا احترام ختم ہوچکا ہے۔ آن لائن گیمز پر لڑکے لڑکیوں کی بات چیت اور گھروں سے بھاگنا عام ہوگیا ہے۔ صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں جسمانی سرگرمیوں کے بجائے آن لائن گیمز کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ نہ صرف نوجوان بلکہ چھوٹے بچے بھی اسمارٹ فونز میں آن لائن گیمز کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔ آن لائن گیمز نوعمر بچوں کو اپنا شکار بنا کر ان کی ترجیحات کو بدل چکے ہیں۔ آن لائن گیمز کی بری عادت بچوں میں نفسیاتی، جمسانی و سماجی مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ گیم کو گیم سمجھنا فائدہ مند، مگر حقیقت سمجھ لینا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ زندگی کا ہر وہ عمل جسے کرنے میں انسان تمام حدود و قیود پار کرجائے وہ اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ آج کے دور میں جہاں ہر سو افراتفری ہے، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اپنے یا اپنے سے جڑے افراد کی روزمرہ کی زندگی کو سنوار کر فائدہ مند بنائے، مگر آج کی بڑھتی ٹیکنالوجی، نت نئی ایجادات، ابھرتی ہوئی انٹرٹینمنٹ اندسٹری اور آن لائن رسائی بلاشبہ ہر گھرانے میں ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ پوری دنیا کے ایک ہاتھ میں سما جانے کے بعد انسان کے سامنے دو راستے کھل گئے ہیں یا تو وہ ان سہولیات کو کارآمد بناتے ہوئے مثبت استعمال کرے یا ان کا بے جا اور منفی استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی ناکام اور نقصان دہ بنا لے۔آن لائن ویڈیو گیمز یا الیکٹرانک گیمز کا حد درجہ استعمال اور ان کے منفی اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اور یہ مسئلہ مشرق و مغرب ہی نہیں پوری دنیا میں یکساں موجود ہے۔ بچوں میں حد سے بڑھتا ہوا ویڈیو اور آن لائن گیمز کا شوق ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ آج کل بچوں میں آن لائن گیمز کا شوق اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اچھے اور برے کی تمیز کیے بغیر وہ اس ٹرینڈ کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ آن لائن گیمز کی عادت ذہن کو اس حد تک بھی خراب کرسکتی ہے، اسی طرح ان پُرتشدد آن لائن گیمز کی صورت میں دوسروں کو قتل کر کے ان کی املاک تباہ کیے جانے کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن اکثر یہ سلسلہ صرف گیم تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایسی گیمز کی عادت سے نوجوان اور بچے نشے اور برائیوں کی لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جرائم کے نت نئے طریقے سیکھ لیتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ یہ گیمز لوگوں کو تشدد کرنے اور مار دھاڑ کے طریقے بھی سکھا رہے ہیں، جو ملک میں جرائم کے اضافے کی وجہ بن سکتا ہے۔ فری فائر اور پب جی کی وجہ سے بھی کئی واقعات رونما ہوئے، کہیں نوجوان لڑکوں نے پب جی کھیلنے سے منع کرنے پر خودکشی کرلی تو کہیں کسی نے حقیقی زندگی کو ہی پب جی سمجھ کر اپنے ہی گھر والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تشدد پر اکسانے، ڈپریشن، خودکشی کا رحجان پیدا کرنے اور قتل کی وجہ بننے والے گیمز پب جی، فری فائر اور دیگر آن لائن گیمز کے منفی اثرات کی لمبی داستان ہے۔

دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ معصوم ہے، اس نے وہی سب سیکھنا ہے جو اس کے والدین یا ارد گرد کے دیگر افراد اسے سکھائیں گے، سوال یہ ہے کہ معصوم بچہ کسطرح نفسیاتی چیلنجز دینے والی ویڈیو گیمز کا شکار بنتا ہے؟ اسکے اصل قصور وار والدین خود ہیں۔ جو آغاز ہی سے چھوٹے بچوں کو رونے سے چپ کروانے کیلئے موبائل فون یا ویڈیو گیمز مہیا کردیتے ہیں، اور کچھ ہی عرصہ میں بچہ جب ان چیزوں کا استعمال ٹھیک سے کرنے لگے تو فکر مند ہونے کے بجائے فخر اور خوشی سے اسے بچے کی ذہانت سمجھتے ہیں۔ جسکا معیار یہ بتاتے ہیں کہ چھوٹی سی عمر میں انکا بچہ ٹچ موبائل میں گیم جیتنے کا ماہر ہو چکا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ نو عمر بچے میں پیدا ہوئی یہ عادت کچھ ہی وقت بعد کسطرح ٹھوس ہو جائے گی اور تب یہی گیمز اسکی ترجیح ہونگی۔ یہیں سے ترجیحات کا غلط تعین شروع ہوتا ہے۔ پہلی غلطی والدین کی ہوتی ہے کہ انھوں نے بچوں کیلئے دیگر صحت مندانہ سرگرمیوں پر ویڈیو گیمز کو ترجیح دی اور دوسرا بچوں کی اپنی ہٹ دھرمی کہ وہ بار بار سمجھانے کے باوجود پڑھائی اور نصیحت کو نظر انداز کرتے ہوئے گیمز کو ترجیح بنا لیتے ہیں۔ اس حقییت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ایک مکمل اور کامیاب شخصیت کی تعمیر میں متعدد عوامل درکار ہوتے ہیں، جن میں جسمانی، ذہنی، روحانی ،نفسیاتی، معاشرتی اور جذباتی عوامل شامل ہے۔ مگر مثالی شخصیت وہی ہے جس میں ان تمام عوامل میں توازن موجود ہو۔ یونیورسٹی آف وسکانسن کے محقق شان گرین کے مطابق ویڈیو گیمز انسانی شخصیت کو تبدیل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اْن کا ماننا ہے کہ ویڈیو گیمز کے استعمال کی نیچر ہی انسان کی شخصیت اور ذہنی کارکردگی پر پڑنے والے اثرات کا تعین کرتی ہے۔ جہاں یہ گیمز ذہن کو تیز اور چست بنا سکتی ہے وہیں ذہن کو ناکارہ بھی کر سکتی ہیں۔ اسی طرح 2019 میں آسٹریلیا میں ویڈیو گیمز کے بچوں کی ذہنی نشوونما پر اثرات کے حوالے سے جامع تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ حد گزری آن لائن گیمز کھیلنے والے بچوں کے دماغ میں عجب سی کشمکش پیدا ہوتی ہے، اور ان کے ذہنوں میں احساس محرومی اور انتقام لینے کی خواہشات بھی دوسرے بچوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں ہونے والی تحقیق میں یہ پایا گیا کہ جو بچے روزانہ ایک گھنٹے سے کم ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں وہ دیگر بچوں کی نسبت معاشرے سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، لیکن جو بچے روزانہ پانچ گھنٹے سے زیادہ ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں وہ مجموعی طور پر اپنی زندگی سے کم مطمئن ہوتے ہیں۔ 2018ء میں یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے انسٹیٹیوٹ آف کینسر نے انتباہ جاری کیا تھا کہ موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال کرنے والے بچوں میں کینسر کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے، ادارے نے اپنی تحقیق میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی برقناطیسی شعاعیں بالغوں کے مقابلے بچوں کے دماغ میں زیادہ دور تک دھنس سکتی ہیں۔ اسی طرح آج ہر دوسرے بچے کو نظر کی عینک لگی دکھائی دیتی ہے ، نظر کی خرابی کوئی وبائی مرض نہیں بلکہ یہ انسان کا خود پیدا کردہ مسئلہ ہے، جس میں سب سے بڑا کردار موبائل فون اور الٹرانک گیجٹز کے بے جا استعمال کا ہے۔ ماہرین صحت بچوں کے ویڈیو گیمز کے زیادہ استعمال پر سخت تشویش کا اظہارکرتے ہیں۔ انکے مطابق ویڈیو گیمز کا بے جا استعمال بچوں میں کلائی، گردن اور کہنی میں درد، نیند کی کمی اور خرابی، موٹاپا، کمزوری یا ہاتھوں میں بے حسی (Peripheral Neuropathy) کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ جب بچے گیمز کھیلنے سے قاصر ہوں تو بے چینی اور چڑچڑے پن کا احساس، پچھلی کھیلی گئیں گیمز کے بارے میں خیالات یا اگلے آن لائن سیشن کی توقع کے ساتھ دلچسپی رکھتے ہیں، گھریلو معاملات سے دور ہو جاتے ہیں، اور بلا خوف و خطر والدین سے جھوٹ بولنے لگتے ہیں۔
آج المیہ یہ ہے کہ غیر نصابی سرگرمیوں کو نصابی تعلیم پر ترجیح دے دی گئی ہے، جو کہ سراسر غلط ہے، کھیل کود بلاشبہ زندگی کا ضروری حصہ ہیں، مگر انکے کیلئے تعلیم کو قربان کر دینا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ آج ویڈیو گیمز کے شوقین بچے تعلیم کو بھلا کر گیمز میں ہی اپنی زندگی بسا چکے ہیں۔ جس سے انکو بڑے نقصان کا سامنا ہے، رات کو دیر تک جاگنے والا بچہ صبح تعلیمی سرگرمیوں میں کبھی ایکٹیو نہیں رہ سکتا۔ اور سکول کے اوقات میں بھی یا گیمز کھیلتا رہتا ہے یا گیمز کے بارے میں سوچتا ہے۔ گزشتہ سالوں میں تین ایسی بڑی آن لائن گیمز کا نام ہم سب نے لازمی سنا ہوگا جو دنیا میں غلبہ رکھنے کے ساتھ نہایت متنازعہ رہی تھیں، ان میں ایک ہے "پب جی” دوسری ہے "بلیو ویل” اور تیسری ہے ” فری فائر” ان تینوں گیمز کو بھارت سمیت دیگر کئی ممالک میں کچھ وقت تک پابندی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا، مگر وجہ کیا تھی؟ وجہ یہی تھی کہ یہ گیمز انٹرٹینمنٹ سے زیادہ لوگوں بالخصوص بچوں میں نفسیاتی مسائل پیدا کر رہی تھیں، بھارت سمیت پوری دنیا میں ان گیمز کی خاطر کئی بچوں اور نوجوانوں نے اپنی زندگی تک کا خاتمہ کیا۔ لہذا آن لائن گیمز کی بے ہنگم عادت ذہن کو اس حد تک بھی خراب کر سکتی ہیں، اسی طرح ان پر تشدد آن لائن گیمز کی صورت میں دوسروں کو قتل کرکے انکی املاک تباہ کیے جانے کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن اکثر یہ سلسلہ صرف گیم تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایسی گیمز کی عادت سے نوجوان اور بچے نشے اور برائیوں کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جرائم کے نت نئے طریقے سیکھ لیتے ہیں، کوئی شک نہیں کہ یہ گیمز لوگوں کو تشدد کرنے اور مار دھاڑ کے منفرد ہنر بھی سیکھا رہی ہیں۔ جو ملک میں جرائم کے اضافے کی وجہ بن سکتا ہے۔
بچوں میں آن لائن اور ویڈیو گیمز کی بڑھتی ہوئی عادت کو ختم کرنے کا حل یہ نہیں کہ گیمنگ پر پابندی لگا دی جائے جس کے باعث ٹیکنالوجی میں ہم پیچھے رہ جائیں، اور بچوں کی انٹرٹینمنٹ ختم ہو جائے۔ بلکہ اسکا حل ٹھوس پلاننگ میں چھپا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہم چین کی لے سکتے ہیں، کچھ سال پہلے چین نے بچوں کے آن لائن گیم کھیلنے پر کرفیو سا ماحول عائد کر رکھا تھا، یعنی کہ ویڈیو گیم کھیلنے کے لیے اوقات کو کم کر دیا تھا۔ ان پابندیوں کے تحت 18 سال سے کم عمر بچے رات 10 بجے سے صبح 8 تک آن لائن گیم نہیں کھیل سکتے، جب کہ دن کے اوقات میں بھی انہیں صرف 90 منٹ آن لائن گیم کھیلنے کی اجازت ہوتی تھی۔ اسی طرح 16 سال سے کم عمر بچے آن لائن گیمنگ پر ماہانہ صرف 28 ڈالر تک خرچ کر سکتے ہیں، جب کہ 18 سال یا اس کے بڑی عمر والوں کے لیے یہ حد 56 ڈالرز ماہانہ رکھی گئی تھی۔ اسی طرح آن لائن گیم کھیلنے والے تمام افراد کو اپنے اصل نام سے رجسٹریشن کرانا ضرروی تھا۔ لہذا آن لائن گیمنگ کے منفی اثرات کو کم کرنے کو بچوں کو انکی عادت پڑنے سے بچانے کیلئے حکومتی سطح پر ایسی ٹھوس حکمت عملی بھارت میں بھی اپنائی جا سکتی ہے۔
بچوں کو گیمنگ کے منفی اثرات سے بچانے کیلیے والدین کی ذمہداری سب سبے بڑی ہے، والدین کو چاہیے کہ سب سے پہلے تو بچوں کی گیمنگ کا ٹائم ٹیبل بنائیں جس میں گیمنگ کے اوقات کو بتدریج محدود کیا جانا چاہیے۔ بچوں کو بچپن ہی سے مصروف اور صحت سرگرمیوں میں مشغول کر دینا چاہیے، کیونکہ فارغ وقت میں بچے ویڈیو گیمز کا استعمال زیادہ کرنے لگتے ہیں، والدین کو چاہیے کہ نرمی یا سختی سے ہر صورت بچوں کو ان سرگرمیوں میں مصروف رکھیں۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کو گیمز کھیلنے پر مکمل پابندی لگا دیں بلکہ دن کا مناسب شیڈول بنانا ضروری ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ بچے زیادہ وقت فطرت کے ساتھ اسکرین کے بغیر گزار رہے ہوں یعنی انکو ویڈیو گیمز کے متبادل کھیل اور دوسری سرگرمیاں مہیا کی جانی چاہیں۔ بچوں کو ٹیکنالوجی سے دور کر دینا ہر گز حل نہیں بلکہ ان کو ٹیکنالوجی کا مثبت اور موثر استعمال سکھانے کی ضرروت ہے، بچوں کو ایسے مشاغل کی طرف راغب کرنا چاہیے جس میں وہ کمپیوٹر کو سیکھیں اور خود نئے نئے پروگرامز کو ڈیزائن کرسکیں۔
اس کے علاوہ کسی بھی جسمانی سرگرمی، کوکنگ، کھیل کے حوالے سے انہیں یوٹیوب چینل شروع کرنے کی طرف بھی راغب کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ بھی والدین کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح بچے اگر گیمز کھیلنے سے زیادہ وقت اپنے گھر والوں بالخصوص بہن بھائیوں کے ساتھ گزاریں تو اسکے بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ پیار بڑھے گا ، اگر بچہ صرف گیمز کی طرف لگا رہے تو اس کیلئے فیملی بھی کہیں Misplaced Priority بن جاتی ہے۔ لہذا بچوں کے ساتھ بات چیت میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ وہ گھریلو معاملات میں زیادہ توجہ دے اور ان کا خود پر گھر والوں سے تعلقات کے حوالے سے اعتماد پختہ ہوسکے۔

 

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

سکول چلے ہم!

Next Post

لداخ تعطل کو حل کرنے کیلئے بھارت اور چین ‘تعمیری رابطے’ میں۔ چینی فوج

Online Editor

Online Editor

Related Posts

اٹل جی کی کشمیریت

اٹل جی کی کشمیریت

2024-12-27
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کے خلاف جنگ ۔‌ انتظامیہ کی قابل ستائش کاروائیاں

2024-12-25
اگر طلبا وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی سے مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں :آغا روح اللہ مہدی

عمر عبداللہ کے اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ کا احتجاج:این سی میں تناؤ کا آغاز

2024-12-25
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
عمر عبداللہ کی حلف برداری آج، جانیں کس کس کو ملے گی کابینہ میں جگہ

عمر عبداللہ کا "جموں جموں”

2024-12-18
عمر عبداللہ: رکن پارلیمنٹ سے دوسری بار وزیر اعلیٰ بننے تک، سیاسی سفر پر ایک نظر

ایل جی کا حکمنامہ۔۔۔دو وائس چانسلر وں کی معیاد میں توسیع

2024-12-17
ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن

ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن

2024-12-15
انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل

انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل

2024-12-11
Next Post
گوگرہ ہاٹ اسپرنگس سے فوج واپس بلانے کا کام شروع، بھارت اور چین نے جاری کیا مشترکہ بیان

لداخ تعطل کو حل کرنے کیلئے بھارت اور چین 'تعمیری رابطے' میں۔ چینی فوج

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan