از:جہاں زیب بٹ
ہم میں سے ہرکوئی کسی نہ کسی اعتبار سے سربراہ ہے ۔ کوئی گھرکا نگران ہے ۔ کوئی محلے کا ذمہ داربناہواہے ۔ کوئی سرکاری محکمے کاکام کاج چلانے پرمامورہے ۔حدیث میںکیاہی خوب کہا گیاہے کہ تم میں سے ہر کوئی اپنے اپنے دائرے میں چرواہا ہے ،ہر کسی کے پاس امانت کے طورپر ریوڑ دیا گیا ہے۔ہر کوئی امتحان سے گزرہاہے اور اپنی کتاب(اعمال کی) محفوظ کرتاجارہاہے ۔ ایک ہولناک دن آنیوالا ہے جب ہر کسی سے اپنے ریوڑ کے بارے میںپوچھ تاچھ ہوگی جس میںکوئی کامیابی سے ہمکنار ہوگااور کوئی حسرتناک ناکامی سے دوچارہوگا۔چھوٹی چھوٹی سطح پر بھی اگر کوئی ذمہ دار ہے سربراہ ہے اس کو بھی خدا کے ہاں کوئی چھوٹ نہیںہوگی ۔ جو حضرات قوم کی سربراہی پر مامور ہوں یا ان کی گردنوںپر سوار بہرصورت وہ ذمہ داری کا ایک پہاڑ اٹھائے ہوئے ہیں ۔لہذا ان کو کامل درجے میں حساس ،سنجیدہ اور بااخلاق ہوناچاہیے ۔ اقبال ؒ نے ایک شعر میںمیرکارواںکے اوصاف کاذکرکچھ اس طرح کیاہے:
نگہ بلند،سخن دلنواز ،جان پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کاروںکے لیے
اوپر تین سنہری اوصاف کا ذکر ہوا ہے جو ایک لیڈر کا رخت سفر ہوتاہے ۔(۱) نگہ بلند: لیڈر دور اندیش ہو ۔ اس کو مسائل کاحقیقی ادراک ہواور دانشمندی کے ساتھ انھیں حل کرنا آتا ہو۔(۲)سخن دلنواز: اس کی گفتگو اتنی سادہ اور سچی ہوکہ دل میں گھر کرجائے ۔وہ دبے کچلے لوگوںکی آواز ہو نہ کہ موقعہ پرست انسان ، جو صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھائے ۔(۳) جاںپر سوز:دل میں نرمی ہو لوگوں سے محبت اور غم گساری کا جذبہ ہو نہ کہ تحقیراور نفرت یاحسد۔
چھوٹی چھوٹی سطح پرہم جواورجتنے میر کارواں ہیںسب گریباں میں جھانک کردیکھیں کہ کون کہاں کھڑا ہے ؟بڑی سطح پر جب کشمیری سیاسی لیڈرشپ کی با ت کریں تو وہ برعکس اوصاف کے مالک نظرآتے ہیں ۔ گزشتہ تیس برسوں میںحالات دگرگوںرہے تو کچھ لیڈر پس منظرمیںچلے گئے اور کچھ حضرات سیاسی منظرنامے پر ابھر کر آئے ۔ زمرہ بندی بھی ہوئی ۔کوئی روایتی لیڈر کہلایا اورکوئی انقلابی قائید۔کوئی مین سٹریم سیاستدان کہلایا توکوئی علاحدگی پسند۔کوئی گیدڑ کہلایا اور کئی شیر نر۔کسی کوعرف ملاکسی کو لقب ، لیکن چہرے اور القاب بدلنے کے باوجود ان کے اوصاف میںانیس بیس کا فرق دیکھنے کو ملا ۔ ان میںزیادہ تر لیڈر وہ ہیںجوحالات کی پیداوار ہیں اور انھوں نے موقعہ کا فائید ہ اٹھانے کا کھیل کھیلا ۔ چنانچہ کشمیر ی لیڈروں کا پہلا وصف ہی موقعہ پرستی ہے ۔ وہ خودغرض اور اناپسندہیں اوراپنی پہنچان کیلیے ہردوسری پہنچان کومٹانے میںیقین رکھتے ہیں ۔انھوں نے ہمیشہ اپنا ہی سوچا اور اپنی انا کیلیے پوری قوم کو دائو پر لگادیا۔ان کی دوسری وصف ہے تکبر ،جو بھی اقتدار میں آیا یا جسکے ہاتھ میں کسی قسم کی طاقت آئی اس نے اس کاناجائز استعمال کیا اور نفرت اور انتقام کا سامان پیدا کیا ۔ان کی گفتارجھوٹ پر مبنی ہے ۔ انھوںنے کبھی سچ کہا اور نہ ہی سچ کا سامناکیا۔وہ کوتاہ اندیش ثابت ہوئے اورانھوں نے باری باری قوم کوخوابوںکی دنیا میں نچانے کا کام کیا ۔ اس کا نتیجہ آخر کار سامنے آگیا ۔کشمیر پر سکون ہے اور لیڈروں پر اعتبار کافی حد تک ساقط ہوگیا ۔کشمیر میں اس لحاظ سے کل بھی سیاسی خلا تھا اورآج بھی ہے کہ اچھے اوصاف کی حامل ایسی حقیقی قیادت میسر نہ آسکی جو ہمیں خوش فہمیوں کی دنیا سے باہر نکالنے کا کام کرتی تاکہ وادی گلپوش میں امن وسکون کی بہار نمودار ہوتی ۔
