از:جی ایم بٹ
گپکار الائنس وجود میں آتے ہی پیش گوئی کی گئی تھی کہ اتحاد زیادہ دیر قائم نہیں رہے گا ۔ اس حوالے سے بی جے پی لیڈروں نے اسی وقت کہا تھا کہ یہ تین خاندانوں کا اتحاد ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارسکتے ہیں ۔ جمعہ کو اتحاد میں شامل پی ڈی پی سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اتحاد سے علاحدگی کا اعلان کیا ۔ انہوں نے فاروق عبداللہ کے رویے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں کشمیر میں اپوزیشن اتحاد کو تہس نہس کرنے کا الزام لگایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ بغیر کسی وجہ اور پیشگی اطلاع کے این سی نے اتحاد کو ختم کیا ۔ اس سے پہلے این سی کے نائب سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے پی ڈی پی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہیں این سی کے خلاف سازشیں کرنے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ۔ این سی نے فیصلہ لیا ہے کہ پارٹی آنے والے پارلیمانی انتخابات کے لئے مبینہ طور وادی کی تینوں نشستوں پر امیدوار کھڑا کرے گی اور کسی بھی دوسری جماعت سے مل کر الیکشن نہیں لڑے گی ۔ انہوں نے خاص طور سے جنوبی کشمیر نشست کا حوالہ دیا اور واضح کیا کہ اس نشست کو پی ڈی پی امیدوار کے لئے کھلا نہیں چھوڑا جائے گا ۔ اس طرح سے گپکار اتحاد کے باضابطہ ختم ہونے کا اعلان کیا گیا ۔ اتحاد میں شامل معروف سیاست دان یوسف تاری گامی کا کہنا ہے کہ وہ اتحاد میں پڑی دراڑ کو بند کرنے کی کوشش کریں گے اور اختلاف ختم کرنے کے لئے دونوں جماعتوں کے رہنمائوں سے ملیں گے ۔ تاہم ان کے کامیاب ہونے کے بہت کم امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں ۔ یاد رہے کہ PAGD نام سے اتحاد جس کو عرف عام میں گپکار الائنس کہا جاتا ہے اس وقت وجود میں آیا تھا جب دفعہ 370 ختم کئے جانے کے ساتھ ہی وادی کے بیشتر مین اسٹریم جماعتوں کے لیڈروں کو کئی مہینوں کے لئے نظر بند کیا گیا تھا ۔ ان کی نظربندی ختم ہونے کے بعد فاروق عبداللہ کی کوششوں اور ان کی گپکار رہائش گاہ پر یہ اتحاد وجود میں لایا گیا تھا ۔ اتحاد کا بنیادی مقصد دفعہ 370 کی بحالی بتایا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ میں اس حوالے سے داخل مقدمے کا دفاع کرنا شامل تھا ۔ سپریم کورٹ نے مقدمے کا فیصلہ مرکزی سرکار کے حق میں سنایا اور اٹھائے گئے قدم کو تحت آئین جائز بتایا گیا ۔ اس کے بعد اس دفعہ کے دفاع کا کوئی مقصد نہ رہا ۔ تاہم گپکار الائنس کو بحال رکھنے کا اعلان کیا گیا ۔ یہ اعلان کاغذی اعلان ثابت ہوا ۔ اب آخر کار اتحاد توڑ دیا گیا جس پر کئی حلقوں میں افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے ۔
کشمیر کی مین اسٹریم جماعتوں کے لیڈروں کے لئے مرکزی سرکار سے زیادہ دیر کے لئے الگ رہنا ممکن نہیں ۔ خاص طور سے ایسی جماعتوں کے لئے جو کچھ عرصے کے لئے اقتدار میں رہی ہوں اقتدار کے بغیر یا مرکزی سرکار کی سرپرستی سے دور رہنا بہت ہی مشکل معاملہ ہے ۔ ماضی میں کئی موقعوں پر دیکھا گیا کہ ایسی جماعتوں کے لئے اپنے عوام کے مفادات سے زیادہ مرکزی سرکار کی خوشنودی زیادہ اہم ہوتی ہے ۔ اس حوالے سے کئی بار دیکھا گیا کہ لوگوں کی مرضی پوچھے بغیر مختلف پارٹیوں نے دہلی کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا ۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی دونوں جماعتوں کو اس معاملے میں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔ فاروق عبداللہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ یہاں کی کسی بھی جماعت کے لئے مرکزی سرکار کی آشیرباد کے بغیر اقتدار تک پہنچنا ممکن نہیں ۔ پی ڈی پی نے اس وقت مرکز میں اقتدار پربراجماں پارٹی بی جے پی سے اتحاد کرکے اپنے لئے حکومت حاصل کی جب پارٹی بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے نعرے پر الیکشن جیت چکی تھی ۔ بعد میں پارٹی نے اس اقدام کو سیاسی غلطی قرار دے کر اس پر عوام سے معافی مانگی ۔ تاہم اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ مستقبل میں اسے بی جے پی کی حمایت کی ضرورت پڑے تو یہ انکار نہیں کرے گی ۔ ایسی جماعتوں کے لئے اقتدار کی قربانی دینا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ بلکہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے یہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے ۔ این سی نے اس سے پہلے بھی بی جے کے ساتھ کئی سال گزارے ہیں ۔ آنجہانی واجپائی کی قیادت میں قائم سرکار میں کئی سال تک عمر عبداللہ بحیثیت ایک وزیر کے کام کرتے رہے ۔ آج اگر مودی انہیں ایسی کوئی آفر کرے تو این سی ہرگز انکار نہیں کرے گی ۔ بلکہ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ پی ڈی پی سے اسی غرض سے راہیں الگ کی گئیں تاکہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میںکامیابی حاصل کرکے مرکز میں بننے والی نئی سرکار میں عمر عبداللہ کے لئے وزارت حاصل کی جاسکے ۔ بی جے پی کا کوئی بھی لیڈر پی ڈی پی کے ساتھ دوبارہ ہاتھ ملانے کے حق میں نہیں ہے ۔ بلکہ اسے بڑے دشمن کے طور سمجھا جاتا ہے ۔ رہا این سی تو اس کے خلاف کوئی ایسا الزام نہیں کہ اس کے ساتھ ہاتھ ملانے میں عار محسوس کی جائے ۔ این سی کا کہنا ہے کہ وادی کی تینوں پارلیمانی نشستوں سے اس کے امیدوار کامیاب ہونگے ۔ حالانکہ ایسا دعویٰ کرنا آسان بات نہیں ۔ پارٹی کے لئے جنوبی کشمیر کے علاوہ شمالی کشمیر میں بھی حالات سازگار نہیں ۔ تاہم عمر عبداللہ کی کامیابی کے امککانات ظاہر کئے جارہے ہیں ۔ ایسی صورت میں پارٹی کچھ حاصل کرنے کی پوزیشن میں آسکتی ہے ۔
