تحریر:غلام حسن سوپور
ایک خاتون کی گود میں بچہ تھا دوڑے دوڑے چل رہی تھی ، ایک جان پہچان والے شخص نے مذکورہ خاتون سے پوچھا بہن جی جلدی جلدی کہاں جارہی ہو ، کیا ماسٹر کی طبیت ٹھیک ہے ، بچہ ٹھیک ہے گھر میں سب لوگ ٹھیک ٹھاک ہیں وغیرہ وغیرہ۔ خاتون بول پڑی ” محترم ماسٹر جی( خاتون کا شوہر ) ابھی ابھی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر تشریف لائے ہیں ،بچہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ، بچہ بیمار تھا ، میں نے سوچا ماسٹر جی کو کیوں پریشان کروں میں خود ہی بچہ کو ڈاکٹر صاحب کو دکھانے اسپتال چلو ں اور ماسٹر جی کو پریشان نہ کروں، اس لئے میں تیز تیز دوڑے جارہی ہوں،،
مذکورہ شخص دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کیا نیک بخت خاتون ہے اپنے شوہر کو فرشتہ سمجھ رہی ہے ، اور یہ خاتون خود بھی فرشتہ سے کم نہیں ہے ۔
تھوڑی دیر بعد ماسٹر جی کا بھی اسی بازار سے گزر ہوا پھر ماسٹر جی کی ملاقات اسی جان پہچان والے شخص سے ہوئی ، آپ نے کہا ماسٹر جی خیر یت سے ہو گھر میں سب ٹھیک ٹھاک سے ہے کیا ،آپ کی بیگم بچہ کو گود میں لیکر جلدی جلدی سے ابھی ابھی اسپتال جارہی تھی ، میں نے ان سے پوچھا تھا کہ ماسٹر جی کو کیوں ساتھ نہیں لایئے ہو، آپ بہت باگھی شالی ہو آپ کی بیگم نے کہا ، ماسٹر جی ابھی ابھی ڈیوٹی سے آیئے ہیں ، میں نہیں چاہتی کہ آپ کو پریشان کرورں، ماسٹر جی گہری سوچ میں ڈوب گیا اور یوں بول پڑا ،” جناب کیا کہا ، میری شریک حیات نے ، یہ دیکھیں ابھی ابھی وہ میرا چہرہ نوچ نوچ کر اور کپڑ ے پھاڑ پھاڑ کر گھر سے غصہ ہوکر چلی پڑی میرے چہرے اور گردن پر زخموں کے نشان آس کے نوچنے کے ہیں ۔ اور آپ کیا سمجھتے ہو وہ شریف ذادی ہے وہ ڈائن ہیں ڈائن ، استغفراللہ۔
