از:فریدی وسیم
آجکل سوشل میڈیا پر جماعت اسالمی کافی چرچے میں ہے ، وجہ ، جماعت کا انتخابی سیاست میں واپسی کا فیصلہ۔یہ بات میں واضح کرتا چلوں کہ جماعت کو ٢٠١٩ء سے وزارت داخلہ کی طرف سے پابندی کا سامنا ہے، اس وجہ سے وہانتخابی سیاست میں بحیثیت پارٹی حصہ تو نہیں لےسکتی البتہ آدھے درجن سے زیادہ آزاد انتخابی امیدواروں کی اسوقت جماعت کھل کر حمایت کررہی ہے۔
لوگوں کے لیے بالعموم اور سیاسی تجزیہ کاروں کے لیے باالخصوص یہ سوال ایک ناقابل حل پہیلی جیسا بنتا جارہا ہے کہآخر جماعت میں اتنی بڑی سیاسی اور نظریاتی سطح کی تبدیلی دیکھنے کو کیوں ملی !؟، جماعت،جس نے ١٩٨٧ء میںانتخاباتی سیاست کو الوداع کہا تھا اور کچھ لیڈران نے ڑھکے چھپے الفاظ میں اور کچھ نے کھل کر اس بات کا اعتراف کیاتھا کہ انتخابی سیاست میں حصہ لینا ہماری غلطی تھی اور آئندہ اس سے پرہیز کیا جائے گا ، پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہجماعت نے اب دوبارا انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔واضح رہے کہ جماعت نے اپنے ارکان حضرات پر بھیکو ووٹ دیا جائے، اس طرح کی غلطی جماعت میں ٹابو ) taboo ) سمجھی جاتی تھی اور اسے جماعت کے مخصوص ماضی میں اس حوالے سے پابندی عائد کر رکھی تھی کہ کسی پارٹی کو الیکشن کے دوران نہ سپورٹ کیا جائے نا ہی اننظریے کی واضح خالف ورزی کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔لیکن اب ہؤاوں کا رخ بدل چکا ہے، شورای کی طرف سے تشکیلشدہ پینل،” جس کی سربراہی اس وقت جماعت کے سابق جنرل سیکرٹری غالم قادر لون صاحب کررہے ہیں ” نے یہ باتکچھ ہفتوں پہلے واضح کی ہے کہ جماعت اب انتخابی میدان میں طبع آزمائی کرےگی، پریس کانفرنس کے دوران اس نےاس بات کا کھل کر اعتراف کیا کہ اگر پابندی ہٹتی ہے تو ہم بحیثیت پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔
دوسری طرف وزارت داخلہ نے اس سال کے اوائل میں ایک ٹریبنل تشکیل دیا تھا جس کے سپرد یہ کام تھا کہ وہ مفصلجانچ پڑتال کے بعد اس چیز کا تعین کرے کہ آیا جماعت اسالمی ‘جے کے’ کو ایک غیر قانونی تنظیم قرار دینے کے لیے کافیوجوہات موجود ہے یا نہیں، لیکن اگست کے آخری ہفتے میں یہ خبر سامنے آئی کہ ٹریبونل کی طرف سے جماعت پرپابندی کو برقرار رکھا گیا اور جماعت نے بحیثیت پارٹی اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کا موقع گنوا دیا۔
دوسری طرف سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے جماعت کو مین اسٹریم میں النے کے پیچھے بھاجپا کی منشا دیکھائیدیتی ہے، بھاجپا اسے اپنے لیے اسے ایک بہت بڑی کامیابی کے طور پر دیکھ رہی ہے ، چونکہ نئی دہلی جماعت کو علیحدگیپسندوں کی طاقت کا منبع مانتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اگر جماعت مین اسٹریم سیاست کا حصہ بنتی ہے تو یہعلیحدگی پسند تحریک پر یہ ایک ایسا کرارا وار ہوگا کہ ان کے لیے اس چیلنج سے نمٹنا مشکل ہوجائےگا اور اس سے جونقصان ہوگا اس کی بھرپائی کرنا ان کے لئے اگر غیر ممکن نہیں تو کم ازکم بہت مشکل ہوگا، دوسری طرف اسکو بھاجپاکی ووٹ کو تقسیم کرنے کی پالیسی کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے ، کیونکہ اس فارمولہ کے مطابق اگر صوبہ کشمیر کاووٹ تقسیم ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا جو اپنے قدم صوبہ جموں میں بہت مظبوطی سے جما چکی ہے۔کچھ کا یہ بھی ماننا ہے کہ جماعت اپنی پالیسی میں ہمیشہ لچکدار رہی ہے تاکہ تنظیم کی بقا کو یقینی بنایا جاسکےجیسا کہ ١٩٦٧ میں بھی جماعت کی طرف سے اس طرح کے اقدام اٹھائے گئے تھے تاکہ اندرا گاندھی سرکار سے اپنا بچاوکیا جاسکے، جماعت اس وقت بھی انتخابی سیاست کا حصہ بنی تھی اور وہ سلسلہ ١٩٨٧ء تک جاری رہا تھا۔اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ جماعت کے اس فیصلے پر علیحدگی پسندوں کی طرف سے کیسا ردعمل سامنے آتا ہےاور جماعت اس فیصلے سے پیدا ہونے والے اندرونی اختالفات سے کیسے نمٹتی ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر اس طرح کیباتیں بھی گردش کررہی ہیں کہ جماعت کے بہت سے سینیئر ارکان اس فیصلے سے مطمئن نہیں دکھائی دےرہے۔ خیرکیا کچھڑی پک رہی پے اور بھاجپا کا اصل گیم پالن کیا ہے ،آنے والے دنوں میں اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ واقعتًاامید کرتے ہیں جو بھی ہوگا انشاء اللہ کشمیر اور کشمیریوں کے لیے بہتر ہی ہوگا، واللہ اعلم !
