تحریر:شاہ نواز علی شیر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے عوام 8اکتوبر 2005کے زلزلہ کے زخم دکھ و غم ابھی بھولے نہیں تھے کہ 24ستمبر 2019کواسی خطہ کے میرپور ضلع و دیگر علاقہ جات جاتلاں کھڑی وغیرہ کو دوبارہ زلزلہ نے اپنی لپیٹ میں لیا جس سے تقریبا پچاس سے زائد ہلاکتیں ہوتیں اور سینکڑوں زخمی اور اربوں کھربوں مالیت کا نقصان ہوا جس کی وجہ اس عوام کے ذہنوں میں زلزلہ کا خوف بھی خاصا گہرا ہو چکا ہے۔ماہرین کے مطابق ریاست جموں کشمیر اور پاکستانی پہاڑی یہ علاقہ جات انتہائی خطرناک زون میں شامل ہیں۔ان زلزلوں کی وجہ سے عوام حکومتوں حکمرانوں سیاستدانوں اور اداروں کو تیار رہنا چاہیے تاکہ حفاظتی اقدامات بچاو اور بحالی کے اقدام بارے پریشانیوں کا سامنا نہ کرنے پڑے۔میرپور کے زلزلہ میں اگرچہ اقدمات تقریبا ٹھیک رہے لیکن اس کی بنیادی وجہ کم نقصان ہے۔اگر ھقائق کو دیکھا جائے تو اس خطہ کے حکمرانوں سیاستدانوں اور اداروں نے 8اکتوبر کے زلزلہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی سنجیدہ حکمت عملی دیکھنے کو مل رہی ہے۔اگرچہ یہ جواز قابل تسلیم ہے کہ زلزلہ کے پیشگی یا بروقت اقدمات ناممکن ہوتے ہیں لیکن بعد ازاں اس کے نتائج سے سے ضرور نمٹا جا سکتا ہے۔لیکن یہاں تصویر کا رخ ہی دوسرا ہے کہ چھوٹی آفات سے نمٹنے کے لیے ادارہ جات کے دانت نکل آ تے ہیں۔زلزلوں سے اداروں حکومتوں نے کیا سیکھا اور 2005 کے بعد تیرہ چودہ سال گزرنے کے باجود ان کی کارکردگی کیا رہی ہے اس حوالہ سے سرسری طور پر 8 اکتوبر کے اس زلزلہ کا جائزہ لینا ہوگا۔اس قیامت خیز زلزلہ نے آزاد جموں کشمیر کے 13297کلو میٹر میں سے 7000 کلو میٹر رقبہ تباہ کیا یعنی 56 فیصد ربقہ زلزلہ کو اپنی لپیٹ میں لیا جس کی وجہ سے 46576اموات ہوئیں۔33136 انسان زخمی اور 314474گھر تباہ ہوئے ایک اندازے کے مطابق 2798 سکول مکمل تباہ ہوئے اور 159 ہسپتال گر گے جس کی وجہ سے اربوں مالیت کا نقصان اٹھانا پڑا۔
جس پر اقوام عالم ار بین الااقوامی این جی اوز نے دل کھول کر مدد کی۔ایک اندازے کے مطابق 166بلین روپے بیرونی امداد کی گئی جبکہ حکومت نے 125 بلین کا مالی نقصان ڈکلیرکیا۔سیرا کی رپورٹ کے مطابق 64بلین روپے متاثرہ عوام کو دیئے گے باقی رقم اسلام آباد ہر سال قسط وات بھیجتا رہا۔بجٹ میں زلزلہ متاثرین کے لیے ڈیڑھ ارب روپے رکھے اور حکومت کو صرف95 کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی اتنی خطری رقم کے باوجود 13 سال گزرنے کے بعد بھی نصف سے زائد تعلیمی ادارے ہسپتالوں یونیورسٹیوں کی تعمیر مکمل نہ ہو سکی اور نہ ہی متاثرین کو بڑی کو بڑی تعداد میں معاوضہ جات دیئے گے زلزلہ کی مد میں رقم میں بڑے پیمانے پر رقم میں میں خرد برد کی گئی یہ رقم ہڑپ کرنے والوں کا احستاب ہونا ابھی باقی ہے۔ان کو اب تک چھان بین کے ذریعے بے نقاب نہ کیا گیا؟ سیکرٹری سیکرا نے گذشتہ برس کہا تھا کہ حکومت پاکستان 39ارب روپے فراہم کرے دو سال کے اندر سب منصوبے مکمل کرلیں گے 66 ارب کی لاگت سے 5393منصوبے مکمل کر لیے گے ہیں فنڈز کی کمی کی وجہ سے 909منصوبوں پر کام شروع ہی نہیں ہو سکا ان میں سے 697سرکاری تعلیمی ادارے ہیں۔سیکرٹری سیرا نے بتایا تھا کہ زلزے کا 99 فیصدجانی نقصان ناقص تعمیرات کے باعث ہوا۔آزاد کشمیر کے زلزلوں سے متاثرہ اضلاع مظفر آباد نیلم،ہٹیاں بالا،باغ،حویلی،پونچھ اور سدھنوتی میں 3 لاکھ 14ہزار گھروں کی تعمیر کی گئی ہے 14774 گھروں کی تعمیر نہیں ہو سکی۔معتبر ذرائع کے مطابق 66ارب کی لاگت سے تعمیر نو کے 7835منصبوں میں سے 5393مکمل کر لیے گے 1533منصوبوں پر کام جاری ہے جبکہ 909منصوبوں پر فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے کام شروع ہی نہیں ہو سکا۔جبکہ زلزلہ زدگان کے تحفظات ابھی بھی موجود ہیں اور اداروں حکمرانوں کی کارکردگی سے اس وقت تک یہ متاثرہ عوام مطئمن نہیں ہیں۔اگر ساری رقم دیانتداری کے ساتھ استعمال کی جاتی تو اس خطہ کو دوبارہ شاہکار بنایا جا سکتا تھا۔اس زلزلہ میں جس طرح ہر طرف آزاد جموں کشمیر و پاکستان میں کرپشن کی گئی اور رقوم ہڑپ کی گئی وہ انتہائی شرمناک ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے ان حکمرانوں سیاستدانوں اور ادروں نے چاہیے وہ زلزلہ ہو یا گولی باری ہو یا آسمانی بجلی گرنے کا معاملہ ہو یا کسی طوفان کا کرپشن کرنے اور کاروبار لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیے رکھا رہا۔کسی قسم کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں رہا۔ہر ایک نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق فنڈز کو لوٹا اور اپنے کاروبارو سیاست کا ذریعہ بنایا۔ٹیکس اور قرضے معاف کرائے گے آفت زدہ دے کر اپنے الو سیدھے کیے گے؟؟؟سانحہ نیلم لیسوا بھی ان اداروں کی ناقص حکمت عملی و سنگین غفلت سے پیش جس کے بنیادی ذمہ دریہ خود ہیں۔
راقم الحروف کے میرپور کے دورے کے دوران میرپور کے سیاسی و سماجی اور ترقی پسند راہنماء ہمایوں پاشا نے بتایا ہے کہ نااہل بلدیہ اور نااہل انتطامیہ کی ملی بھگت اور غفلت سے میرپور شہر کی بڑی بڑی عمارتوں پر بڑے بڑے جہازی سائز کے بل بورڈز ار ٹیلی فونز کے ٹاور جہاں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے خلاف ہیں وہیں وہ زلزلہ کی وجہ سے کسی وقت بھی بڑے حادثہ کا سبب بن سکتے ہیں۔کیوں کہ عمارتیں زلزلہ کی وجہ سے ناقابل استعمال ہو چکی اور اپنی بنیادیں کھو چکی ہیں۔انہوں نے کہا یہ ٹاور نہ صرف براہ راست خطرہ ہیں بلکہ ماحول و فطرت دشمن بھی ہیں کمپنیوں نے مالکان کو کرائے پر چڑھا کر دیئے ہیں جس سے شہریوں اور موحولیات کو سخت خطرہ ہے۔اب تک ان ٹادورز اور بورڈز کو کیوں نہیں اتارا گیا جب کوئی سانحہ حادثہ پیش آئے گا تو تب قانون حرکت میں آ ئے گا؟؟؟
جبکہ حلقہ نکیال میں 2013سے اب تک گولہ باری کی وجہ سے مکانات کے نقصان بارے ستر کروڑ کی رقم دی جس سے اکثریتی مستحق خاندان استفائدہ نہیں اٹھا سکے حسب رویت انتظامیہ و متعلقہ اداروں کی ملی بھگت و خرابی کی وجہ سے غیر مستحقین کی بڑی تعداد یہ رقم لے گئی!!!غرض یہ کہ آزاد جموں کشمیر میں نعشوں پر سیاست بھی کی جاتی ہے لیکن اب نعشوں کو کاروبار کا بھی ذریعہ بنا دیا گیا جوحاکم و بالادست طبقہ کی نام نہاد انسانیت و اخلاقیات اور گڈ گورننس کی صلیت کو بخوبی بے نقاب کرتا ہے۔جو کسی المیہ سے کم نہیں۔اس خطہ کی ساری عوام و متعلقہ فورم کو علم ہے اس خطہ میں جتنے بھی تعمیراتی کام ہوتے ہیں ان میں نیچے سے اوپر تک بھرپور کرپشن کی جاتی ہے پھر ناقص میٹریل کا استعمال کیا جاتا ہے بغیر کسی حکمت عملی منصو بہ کے اونچے لمبے ڈھانچے کھڑے کر دیئے جاتے ہیں جو بعد زاں آفات کی جھلک سے زمین بوس ہو جاتی ہیں۔
