تحریر: قاضی سلیم الرشید
روزنامہ راشٹریہ سہارا کے 6 اکتوبر کے ایڈیشن میں معترمہ نیلم مہاجن سنگھ کا کشمیر سے متعلق ایک مضمون’’ او مائی کشمیر: امن کے پھول دہشت کی زنجیریں‘‘ عنوان کے تحت شائع ہوا۔مضمون نگار نے کشمیر کی صورت حال کو بڑے ہی گول مول انداز میں پیش کیا۔ اپنے آپ کو کشمیر کی بیٹی بتاتے والی مصنفہ نے’’ اسی سے سردی اسی سے گرمی‘‘والے محاورہ کی صیح تعبیر پیش کی اور کشمیر کے معاملے میں حسب روایت دوروخی پالیسی اپنا کر اصلی مسئلہ سے توجہ ہٹاکر ادھر ادھر کی باتوں میں اس کو ٹالنے کی کوشش کی ۔ اگر مضمون نگار کے دل میں اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی تیں ذرا سی بھی ہمدردی ہوتی تو وہ اصلی بات کو چھپانے کے بجائے اس کا برملا اظہار کرتی۔معترمہ کشمیر یوں کے بےجا خون خرابے کی ذکر تو کرتی ہیں لیکن اس خون خرابے کے بنیادی وجوہات کیا ہیں اس بارے میں چپ سادھ لیتی ہیں۔ روزنامہ کے قارئین تک مسئلہ کشمیر کی صیح صورت حال پر ادھر ادھر گھوما پھرا کر صاحب اقتدار لوگوں کےلئے راہداری کا موقعہ فراہم تو کرتی ہے۔لیکن ان اداروں تک صیح صورتحال پہنچانے سے کتراتی ہیں۔محترمہ نیلم جی ، حقیقت سے چشم پوشی کرنا نا انصافی کہلاتا ہے۔ صیح صورت حال کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا انسانی اقدار کے منافی مانا جاتا ہے۔ آپ صاحبہ نے کشمیر پر قلم اٹھایا ٹھیک کیا لیکن قلم اٹھانے کا حق غیر جانبداری سے نہی نبھایا۔ یہ آپ نے اچھا نہی کیا۔ جس اخبار میں آپ کا یہ مضمون شائع ہوا ہے وہ ایک کثیر الاشاعت بین الریاستیروزنامہ ہے اور ملک بھر میں قارئین کی ایک بڑی تعداد اس سے روزانہ پڑھتی ہے۔ان ہزاروں بلکہ لاکھوں قارئین کو غلط یا کم از کم ادھوری کہانی پیش کرنا بالکل نا انصافی ہےہے۔اب اصل کیا ہے اس سے پورا ملک ہی نہی بلکہ پوری دنیا واقف ہے۔ 1947 کے الحاق کے بعد کشمیریوں کو ملک بھر میں ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ اس میں ملک کی لیڈرشپ اور ہماری ریاستی لیڈرشپ کا کیا، کیوں اور کتنا رول رہا ہے وہ ایک الگ عنوان ہے۔میری نظر میں ہمیں غیروں سے زیادہ اپنوں ہی نے لوٹا ہے۔اگر اپنی سیاسی قیادت قوم کو دھوکھ نہ دیتے تو لوگ آسانی سے ہمیں کہاں جکڑ لیتے۔ اپنوں کی مہربانیوں سے ہی ہم دربدر پھر رہے ہیں۔نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ جن سے ناطہ توڑا وہ ہمارے جان کے دشمن بنے۔ اور جن سے ناطہ جوڑا انہوں نے ہمیں کبھی دل سے قبول نہی کیا۔ ہمیشہ ہم پر شک کرتے رہے۔ اور اکثر اوقات ہمیں بے عزت بھی کرتے رہے۔ دل کی دوری مٹانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن ہمیشہ دلی سے دور دکھتے ہیں۔ ایک کی دشمنی اور دوسرے کی بے اعتمادی نے ہم کشمیروں کو جکڑ کے رکھا ہے
۔بقول شاعرنہ
ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہےنہ
خدا ہی ملا نہ وصال صنم