
ملک میں جہاں ایک طرف ڈیجیٹل انڈیا اور خواندگی کی بات عروج پر ہے وہی اگر کوئی زمینی سطہ پر آ کر دیکھے تو آج بھی 90 فیصد خواتین تعلیم کی روشنی سے بہت دور اندھیرے میں اپنا وقت گزار رہی ہیں۔آج جب کہ ہمارے وزیر عظم نے مختلف اقسام کی اسکیم بچیوں کے لئے لاگو کی جیسے:بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ، سی بی ایس سی اُڑان،بالکیا سرہی ادئی یوجنا،سُکنیا سمریدی یوجنااہم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سرکار نے کچھ خاص اسکیم جموں کشمیر میں بھی دی جس میں:لاڈلی بیٹی، سُپر 75 اسکیم،تجسونی اسکیم وغیرہ وغیرہ ۔ یہ ساری اسکیم بیٹیوں کو پڑھانے اور بچانے کا دعوا کرتی ہیں۔ لیکن ان سب اسکیم کے باوجود ہماری بچیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ جس کی جیتی جاگتی مثال سرحدی ضلع پونچھ سے چند کلو میٹر کی دوری پر واقع گاؤں سلوتری ہے۔یہ وہی علاقع ہے جو کبھی ہمیشہ شیلنگ کی زد میں رہا کرتا تھا۔ستم ظریفی یہ کے اس دور جدید میں بھی یہاں کی لڑکیاں سرکار کی جانب سے چلائی جانے والی ا سکییموں سے درکنار ہیں اور تعلیم سے محروم ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس علاقع کی عوام آج بھی وہیں کہ وہیں ہیں جہاں 75 سال پہلے تھی۔ اس سلسے میں ضلع پونچھ کے گاؤں اور پنچا یت سلوتری کے وارڈ نمبر 2 کی پنچ شمیم اخترسے جب ہم نے بات کی تو اُنہوں نے کہا کہ گاؤں سلوتری میں کورونہ کے دوران پچھلے دو سال سے بچے بچیاں تعلیم سے محروم رہے کیونکہ کلاس آنلاین ہوتی تھی اور سلوتری علاقے نٹوورک سے ابھی تک محروم ہے۔بہت سی بچیوں نے کورونہ کے وقت تعلیم سے کنارا کشی کر لی اور بہت ساری کی کم عمر میں شادی ہو گئی۔وہیں پر ایک نوجوان عمران احمد جوکالج کا طالب علم ہے،کا کہنا ہے کہ یہاں صرف مڈل اسکول تک ہی تعلیم دی جاتی ہے اور اگے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہمیں پونچھ شہرجانا پڑتا ہے۔ میں بھی اپنی ہائر سیکنڈری اور کالج کی تعلیم کو مکمل کرنے کے لئے پونچھ رہتا ہوں کیوں کہ پونچھ سے سلوتری آنے جانے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لیکن ایک تو گاڑی وقت پر نہیں ملتی ہے اوردوسرا ڈرائیور اپنی مرضی سے کرایہ وسولتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیٹرول کی قیمت بڑھنے سے گاڑیوں کا کرایہ بھی زیادہ کر دیا گیا ہے۔پونچھ رہنے سے بھی میرے احراجات بڑھ جاتے ہیں۔کمرے کا کرایا کھانا وغیرہ۔
اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائر فوجی محمد قاسم کا کہنا ہے کہ یہاں تقریبا تین چار سال پہلے ماڈرن گاؤں پروجیکٹ دیا گیا تھا مگر اس پر کام آج تک مکمل نہیں ہوا۔ ان کا بیٹا اعجازاحمدپونچھ کالج کا طالب علم ہے۔اس کا کہنا ہے کہ جب لاک ڈاؤن میں آن لاین کلاس ہو رہی تھی۔لیکن ادھر نٹورک نہ ہونے کی وجہ سے مجھے آن لاین کلاس میں شامل ہونے کے لئے روزایک کلومیٹر دور جنگل میں جانا پڑتا تھا۔ پھر وہاں سے واپس گھر آنے میں کافی دیر ہوجاتی تھی۔یہ سلسلہ ایسے ہی رہا، جو میرے لئے کافی مشکل تھا۔آج دور حاظرمکمل انٹر نیٹ پر مشتمل ہے لیکن ہمارے یہاں آج بھی ان گینت علاقہ ایسے ہیں جہاں انٹرنٹ کی دستیابی تو دور کی بات ہے، و ہاں ایک دوسرے کی خیر خبر کا پتا کرنے کے لئے بھی ٹاور مسیر نہیں۔ ایسے علاقوں کے بچے کیسے آج کے اس دور اگے کی طرف رواں ہو سکتے ہیں؟نیٹورک نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ذاتی زندگی پر بھی گہرہ اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔کویڈ کے دور میں ایسے علاقوں کے بچے تعلیم سے بلکل محروم ہو گئے تھے۔
صرف نیٹ ورک ہی نہیں اسکول کی حالت سخت خستہ حال ہونے کی وجہ سے تعلیم بھی متاثرہو رہی ہے۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے جو ہمارے ملک میں لڑکیوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ناممکن بنا دیتی ہے۔اس کے علاوہ غربت بھی ایک وجہ ہے، اگرچہ تعلیم مفت دی جا رہی ہے، پھر بھی اسکول دور ہونے سے لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کے لیے کافی لاگت آتی ہے۔ لہٰذا وہ خاندان جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدو جہد کر رہا ہے وہ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔دوسری بات دیہاتی علاقوں میں زیادہ اسکول نہیں ہیں۔جس سے تعلیم حاصل کرنے کا جزبہ رکھنے والی لڑکیوں کو اعلی تعلیم کے لئے دور جانا پڑتا ہے۔ اس سے دوری کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہ دیہات سے دور واقع ہیں۔ کچھ علاقوں میں طلباء کو اپنے اسکول تک پہنچنے کے لیے تین سے چار گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لڑکیوں کی حفاظت سے سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ لہذابیشتر والدین انہیں اسکول بھیجنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔ اس طرح دیہی علاقوں کی لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ رک جاتا ہے۔
میری پونچھ کے ضلع ترقیاتی آفیسر اور تحصیل کے ترقیاتی آفیسر کے ساتھ ساتھ محکمہ تعلیم کے تمام افسران سے مودبانہ اپیل ہے کہ ایسے علاقوں کی طرف نظر ثانی کی جائے تاکہ ان علاقوں کے بچے بچیاں بھی اعلی تعلیم حاصل کراگے آ سکیں۔ وہ بھی اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔اپنے والدین کے خواب پورا کر سکیں اور ملک کی ترقی میں اپنا نمایا کردار ادا کر سکیں۔جب ہم سب یہ جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ تعلیم کے بغیر کسی بھی ملک کی ترقی ممکن نہیں ہے تو پھر اس جانب توجہ کیوں نہیں دی جاتی ہے۔جب سرحدی گاؤں کے بچے بچیوں کو بہتر تعلیم ہی نہیں مل سکے گی تو پھر محکمہ تعلیم کے قیام کا مقصد ہی کیا رہ جاتا ہے؟ (چرخہ فیچرس)
