تحریر: ڈاکٹر جی ایم بٹ
منشیات کے استعمال اور پھیلائو کے خلاف بڑے پیمانے کی مہم چلائی جارہی ہے ۔ عالمی سطح پر اس حوالے سے زوردار مہم کا آغاز کیا گیا ہے ۔ لوگوں کو منشیات کے استعمال سے پڑنے والے اثرات سے باخبر کرانے کے لئے ایک دن مقرر کیا گیا ہے ۔ اس روز پوری دنیا میں اینٹی ڈرگ ریلیز نکالی جاتی ہیں ۔ جلسے جلوس کئے جاتے ہیں اور سمپوزیم کا انعقاد کرکے اس موضوع پر نظریات پیش کئے جاتے ہیں ۔ نوجوانوں کے اندر اینٹی ڈرگ سوچ پیدا کرنے کے لئے تقریریں کی جاتی ہیں ۔ اتنی زور دار مہم چلانے کے باوجود منشیات کے پھیلائو میں کوئی خاص کمی نہیں آرہی ہے ۔ بلکہ اس میں دن بہ دن اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے ۔ کئی علاقوں کے اندر منشیات کی کاشت سے دوسری فصلوں کی پیداوار میں کمی دیکھی جارہی ہے ۔ اس پر سخت تشویش کا اظہار کیا جارہاہے ۔ مایوسی کی بات یہ ہے کہ لوگ ایسے حساس معاملے کو نظر انداز کررہے ہیں اور منشیات کی پیداوار اور پھیلائو کو ایک وسیع تجارت کے طور اختیار کیا جارہاہے ۔
اسلام نے اس زمانے میں منشیات کے خلاف آواز اٹھائی جب یہ عرب سماج میں اعلیٰ طبقے کے لئے باضابطہ رواج پاگیا تھا ۔ وہاں معاشرے کے لئے شراب اور ایسی مشروبات زندگی کا لازمی جز کی حیثیت اختیار کی ہوئی تھیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے معاشرے کے بااثر طبقے کے تحفظات کی پروا کئے بغیر منشیات کو حرام قرار دیا اور اعلان کیا کہ ایسا کوئی شخص ہماری مجلس یا مسجد میں نہ آئے جو منشیات کا استعمال کرتا ہو ۔ یہاں تک کہ ایک مرحلے پر اس طرح کے کسی فعل میں ملوث افراد کے لئے باضابطہ سزا مقرر کی گئی ۔ اس کے بعد اسلامی معاشرے کے اندر یہ ایک برائی سمجھی جانے لگی ۔ یہاں تک کہ اسے برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ۔ برائیوں کے خاتمے لئے منشیات کے استعمال پر سخت پابندی لگادی گئی ۔ اس پابندی کے نتیجے میں دیسی شراب کی تمام بھٹیاں ختم کی گئیں اور اسے ایک معیوب شے سمجھا جانے لگا ۔ جب سے لے کر آج تک منشیات کے استعمال کو مسلم معاشرے کے اندر نفرت سے دیکھا جاتا ہے ۔ اگرچہ آج کے مسلم معاشرے دوسرے معاشروں سے مختلف نہیں ۔ مسلمانوں کے اندر اسی طرح سے منشیات کا استعمال کیا جانے لگا ہے جیسا کہ ان معشروں کے اندر نظر آتا ہے جہاں اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے ۔ یہ بڑی معیوب بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس چیز نے ایک وبائی صورتحال اختیار کی ہوئی ہے ۔ پولیس نے جب سے منشیات کو لے کر مہم چھیڑی ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی نہ کسی درگ اسمگلر کو نہیں پکڑا جاتا ۔ کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں منشیات کا کاروبار کرنے والے نہ جاتے ہیں ۔ جہاں کہیں بھی ناکہ لگایا جاتا ہے وہاں کوئی نہ کوئی ایسا ملزم گرفت میں آتا ہے جس کی تحویل سے منشیات کی بڑی کھیپ بر آمد ہوتی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اب اس معاملے میں خواتین بھی ملوث پائی جاتی ہیں ۔ جنوبی کشمیر سے اطلاع ہے کہ وہاں پیشہ وار خواتین اس کاروبار میں ملوث ہیں ۔ انہیں کئی بار پکڑا گیا اور چھوٹ گئیں ۔ اس کے باوجود وہ اس کاروبار کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس قدر بگاڑ کا شکار ہے ۔ معاشرے کے اندر منشیات کے پھیلائو کے حوالے سے سنگین صورتحال سامنے آنے کے باوجود سماج سدھار کے دعوے دار تاحال متحرک نہیں ہورہے بلکہ یہ لوگ آج تک خواب خرگوش میں مست ہیں ۔ یہاں تک کہ علما نے اس معاملے پر اپنی آنکھوں پر پٹی چڑھائی ہے ۔ گاندھی جی کے بندروں کی طرح انہیں کہا گیا ہے کہ نہ دیکھو ، نہ سنو اور نہ بولو ۔ یہ لوگ بڑی شدت سے اس نصیحت پر عمل پیرا ہیں ۔ ان کی نظر میں اسلام کی تعلیمات اس قدر بوسیدہ ہوچکی ہیں کہ منشیات سے ان تعلیمات کا کوئی واسطہ نہیں رہاہے ۔ سماج میں منشیات کے استعمال اور کاروبار کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علما کا نئی نسل پر اثر و رسوخ ختم ہوچکا ہے ۔ اب ان کی بات کا کوئی خاص اثر نہیں لیا جاتا ۔ بلکہ علما نے بھی اس معاملے میں بے رخی اختیار کی ہوئی ہے ۔ علما اس موضوع پر کوئی بات کہنے کو تیار نہیں ۔ ان کے حلقہ اثر میں جو لوگ نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر لوگ ناجائز کاروباروں میں ملوث ہیں ۔ یہ انہیں ایسے کاروبار سے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے ۔ علما کا بنیادی کام یہی ہے کہ معاشرے کو ان کے اندر پائی جانے والی برائیوں سے پاک و صاف کریں اور اسلامی احکامات کا نفاذ عمل میں لائیں ۔ اسلام نے منشیات کے حوالے سے واضح احکامات دئے ہیں ۔ منشیات سے کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا ہے ۔ اس کے باوجود ہمارے علما اس حوالے سے کافی سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ اسلام دشمن قرار دی جانے والی حکومتیں منشیات کے حوالے سے بڑی متحرک ہیں اور اس کے خلاف مہم میں آگے آگے ہیں ۔ دوسری طرف اسلامی ادارے اس کو روکنے کے لئے کوئی حرکت نہیں کرتے ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اسلامی معاشروں کے اندر جہاں عبادات کا رواج کم ہورہاہے وہاں منشیات کے پھیلائو میں تیزی آرہی ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کشمیر میں کئی لاکھ افراد منشیات کا استعمال کررہے ۔ ایسی لت جن لوگوں کو پڑی ہے ان میں کم سن بچوں سے لے کر عمر رسیدہ افراد تک شامل ہیں ۔ اس میں طلبہ کے ملوث ہونے کی اطلاع ہے ۔ اس کے اثرات سماج کے ہر طبقے میں پائے جاتے ہیں ۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس کے خلاف جو مہم علما کو چلانی تھی وہ مہم عالمی ادارے اور پولیس تھانے چلارہے ہیں ۔ اس کے پھیلائو پر کفر کے ایوان پریشان ہیں جبکہ اسلام کے نام پر چلائے جانے والے ادارے اپنی موج مستیوں میں مشغول ہیں ۔ علما کی اس حوالے سے خاموشی معنی خیز ہے ۔