
ڈاکٹر درخشاں اندرابی نے اپنی نظموں میں عورتوں کا دکھ درد اس طرح بیان کیا ہے کہ ہر شعر بلکہ ہر لفظ سے لہو ٹپکتا ہوا دکھائی دیتا ہے حالانکہ میں نے کبھی بھی مذکورہ شاعرہ کو روبرو نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی ان سے کبھی بات چیت کا اتفاق ہوا ہے ہاں مگر ڈاکٹر درخشاں اندابی کا ایک شعری مجموعہ پرویز مانوس کے ذریعے سے ملا ہے” ہتھیلی پہ سورج” نام کا یہ شعری مجموعہ آزاد نظموں کا ایک شعری مجموعہ ہے جس میں 56 نظمیں شامل ہیں ایک ایک نظم میں نسوانیت کا درد بیان ہوا ہے یہ شعری مجموعہ پڑھ کر واقعی ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر درخشاں اندرابی نے ہتھیلی پہ سورج سجا رکھا ہے جو کوئی معمولی بات نہیں ہے ان نظموں کو پڑھ کر سورج کی تپش محسوس کی جا سکتی ہے یہاں تک کہ جل جانے کا بھی خطرہ ہے لیکن مذکورہ شاعرہ نے ایسے حالات میں بھی امید کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔انہوں نے حوصلے اور ہمت سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے اکر چہ بیشتر نظموں میں یا تو جدائی کا دردو قرب بیان ہوا ہے یا ٹوٹتے اور کھوکھلے رشتوں کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا ہے۔تاہم امید اور حوصلے کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا ہے جیسے
یہ ساری پہاڑیاں کھود ڈالنی ہیں
مردار خور رشتے داری کی
رسیوں کی گانٹھیں کھول کر
خیموں کو گرا دینا ہے
اور ڈھک لینا ہے
باہوں میں بھر کر قید کرنے کا ہیبت ناک ارادہ
اگر چہ جدائی بذاتِ خود کسی عزاب سے کم نہیں ہے تاہم کبھی کبھی رشتوں میں اس قدر کھٹا پن آجاتا ہے۔کہ ایک دوسرے کی بات تک برداشت نہیں ہوتی ہے بات بات پر تصادم کی نوبت آجاتی ہے اور ایک چھت کے نیچے زندگی گزارنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن سا بن جاتا ہے مزکورہ شاعرہ کا ماننا ہے کہ ایسے میں ایک دوسرے سے جدا ہونا ہی بہتر ہے لکھتی ہیں۔
طرح طرح کی آوازوں کے تصادم میں
موسیقی کے تار ایسے بج رہے ہیں
جیسے میں تمہاری خوشحالی میں
فقر کی طرح بج رہی ہوں
تم اپنے لہجے کے اعتماد سے آزاد
اور میں اپنے آپ کی گرفت سے آزاد
آؤ ایک تیسرے راستے پر کچھ قدم ساتھ چلیں
تم مشرق کی جانب چند قدم نکلو
میں مغرب کی جانب چند قدم جاؤں
پھر اگر ہم لوٹ بھی آئیں
تو بہ آسانی ایک دوسرے کے پاس سے نکل سکیں
اپنی اپنی سمتوں کی اور
مزکورہ شعری مجموعے میں کربلا سے متعلق بھی تین مختصر نظمیں لکھیں گئیں ہیں ڈاکٹر درخشاں اندرابی نے بہترین تشبیہات، استعارات کا استعمال کیا ہے ۔ڈاکٹر درخشاں اندرابی نے ان آزاد نظموں کے ذریعے غمِ ذات کو غمِ کائنات بنانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے ڈاکٹر صاحبہ کو انسانی نفسیات کا بہت گہرا مطالعہ ہے جو ان کی شاعری میں خوب جھلکتا ہے جن رشتون میں ایک دوسرے کا احترام، اور ایک دوسرے کی قدرومنزلت اور برداشت کا مادہ موجود ہو وہیں رشتے سالم اور مکمل رشتے کہلاتے ہیں اسی طرح کا اظہارِ خیال درخشاں اندرابی نے نظم "سالم رشتے” میں کیا ہے لکھتی ہیں۔
تم آئے تو ڈھیر سارا کوڑا بکھیرا
میں آئی تو جھاڑو لے کر آئی
کوڑا ہٹایا
اور ساتھ کے احساس کا بوجھ بھی
ہم نے اپنے رشتے میں کچھ نہیں بانٹا
ایک دوسرے کو بھی نہیں
درخشاں اندرابی کی نظمیں اگر چہ نسوانی درد و قرب کے حق ایک زبردست احتجاج تصور کی جا سکتی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کی شاعری سے نیم مردہ لوگوں کا جینے کی ہمت بلکہ وجہ مل جاتی ہے درخشان اندرابی نے اپنی شاعری میں یہ پیغام دیا ہے کہ انسان کو جھوٹے خوابوں کے سہارے زندگی نہیں گزارنی چاہیے بلکہ حقیقتوں کا سامنا کرنا چاہئے چاہے کتنی بھی مصیبتیں کیوں نہ آجائیں انسان کو ہر حال میں خوش رہنے کا سلیقہ سیکھ ہی لینا چاہئے ان باتوں کی تصدیق نظم "رت جگا” اور ” پہاڑیاں کھود ڈالیں ” میں برملا طور پر کیا گیا ہے درخشاں اندرابی کا ماننا ہے کہ موجودہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے اور ہر طرف مرد کا غلبہ دکھائی دیتا ہے لیکن ایسے میں بھی خواتین کو اپنی آواز بلند کر لینے چاہیے اور اپنے حصے کا حق اگر مانگ کر نہ ملے تو چھین کر لینے کا ہنر سیکھنا چاہئے ان باتوں کی تصدیق انہوں نے نظم”اشتہاروں والی عورت” میں کچھ اس طرح کیا ہے
پارلیمنٹ کے ہنگامے میں
قائدوں کی چلاہٹ کے بیچ
دبی سہمی آئین کی زبان ہے
اشتہاروں والی عورت
عورت کے حقوق کی آواز میں ابھر آئی مردانگی نے کہا کہ
آزادی کے پوسٹر پر چھپی ہے
اشتہاروں والی عورت
نظم "جلوس” میں شاعرہ نے بہترین انداز میں زرائع ابلاغ پر چوٹ کی ہے اور ذرائع ابلاغ کی جانبداری کو بہت ہی غیرجانبداری کے ساتھ نشانہ بنایا ہے۔اس نظم کا ایک حصہ پیش خدمت ہے
جہاں کوئی حرکت نہیں تھی
وہاں کا ہنگامہ
خبروں میں چھایا تھا
جہاں جلوس کی گرج تھی
وہاں کا میوٹ شارٹ
پورے دن کے حالات پر
کر رہا تھا تجزیاتی تبصرہ
تاثرات کا ایک جلوس
خبر بینوں کر ذہنوں کو
روندھ رہا تھا
"کشیدہ لیکن قابو میں "والے حالات کے بیچ
مزکورہ شعری مجموعے میں "ہتھیلی پہ سورج” نام کی بھی ایک نظم ہے جہاں شاعرہ کہتی ہیں کہ ہتھیلی پہ سورچ ہونے کے باوجود مجھے اندھیروں کا خوف کھائے جارہا ہے لکھتی ہیں
میں اجالے کے دیس
بٹھک رہی ہوں
ہتھیلی پہ لئے سورج
اندھیروں کا خوف
کرن کرن تعاقب کر رہا ہے میرا
اس شعری مجموعے پر چندر بھان خیال، مخمور سعیدی، رئیس الدین رئیس اور جاوید انور جیسی شخصیات نے اظہار خیال کیا ہےچندر بھان خیال ہتھیلی پہ سورج پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ” یہ شاعری دراصل "حالات کشیدہ مگر قابو میں ” والی شاعری ہے بلاشبہ ان نظموں کو پڑھنا مدتوں کے بعد غسل کے لطف کا مترادف ہے رئیس الدین رئیس لکھتے ہیں۔کہ ڈاکٹر درخشاں اندرابی ایک ایسی ماہر فن شاعرہ ہیں جنہوں نے درجنوں معرکتہ الاآرا اور شاہکار نظمیں تخلیق کر کے اپنے آفرید گارانہ و سخنورانہ اور خلاقانہ و ساحرانہ جمال و کمال کے دریا بہا دیے ہیں اس ضمن میں نظم رتجگا کا حوالہ دیا جاسکتا ہے "مدیر تحریک ادب جناب جاوید انور اس کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ” درخشاں اندرابی کی بعض نظموں میں گہری جزباتی کشمکش کے نشانات ملتے ہیں (بہت سی روئی دھنک چکی ہے، احساس، جل رہی ہوں) وہ ان کے عملی مسائل کے تناظر میں ایک آلہ کار کے طور پر برتنے کی کاوشوں کا ثمرہ ہے ان کی ایک نظم "کرم پیلہ” جہاں المناک واقعات کے ایک تسلسل کی جانب اشارہ کرتی ہے ” علم و ادب کے ان درخشندہ ستاروں کا اس شعری مجموعے پر اظہارِ خیال اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ ایک بہترین شعری مجموعہ ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ درخشاں اندرابی کے قلم سے ایسے درد کے چشمے اور بھی پھوٹیں گے اس درد کو پڑھتے ہوئے ایک عجیب سی لزت محسوس ہوتی ہے ۔یہ شعری مجموعہ مختلف قسم کے احساسات اور درد سے بھرا پڑا ہے۔ یہ شاعری پڑھ کر قاری پر بھی ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے اور قاری بھی ان احساسات میں کھو سا جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس مجموعے میں چند نظمیں ایسی بھی ہیں جنہیں میں سمجھنے سے قاصر رہا۔تاہم اس شعری مجموعے میں ایک مکناتیسی کشش محسوس ہوئی جو قاری کو جھکڑ کے رکھتی ہے ۔
