
صنف افسانچہ پر طبع آزمائی کرنے والوں میں ایک نام خالد بشیر تلگامی کا ہے۔ ان کی کتاب دکھتی رگ در اصل ان کے 106افسانچوں کا مجموعہ ہے جس میں نئے نسل کے قلم کار نے نہ صرف سیاسی و سماجی حالات کو پیش کیا ہے بلکہ کچھ ایسی داخلی مشاہدات کو بھی قلمبند کیا ہے جس سے مصنف کی فکری اساس کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں میں زیادہ تر سیاست اور سماج کی زبوں حالی کا احساس موجود ہے ۔ بشیر تلگامی کی اکثر کہانیو ں میں آپ کو معاشرہ بولتا نظر آئے گا۔ ان کی کہانیوں میں نہ صرف فرد کی زندگی کا تراشیدہ ملتا ہے بلکہ اس فرد کے اطراف میں پھیلے معاشرے کا بیورابھی مبہم لیکن طریقے سے پیش ہوتا ہے۔میرے خیال میں تلگامی کی کہانیوںکے کل تین جزو ہیں۔فرد ، حقیقی معاشرہ اور خیالی معاشرہ ۔یعنی ان کی کہانیاں کسی بھی قاری کو تین کیفیات سے روشناس کرواتی ہیں۔ پہلی کیفیت ۔۔ بطور فرد آپ کہاں ہیں اور آپ کے ساتھ حالات کس طرح کے ظہور پذیر ہیں۔ دوسری کیفیت معاملات جن میں فرد (آپ ) شامل ہیں اس کے لیے اطراف ( حقیقی معاشرہ )کیا کچھ محسوس کرتا اور کیا محسوس کرواتا ہے۔ تیسری کیفیت جس سے خالد بشیر تلگامی کی کوئی سی بھی کہانی کبھی فرار نہیں پاتی وہ ہے ایک آئیڈیل معاشرہ ،جس میں فرد اپنے مزاج اور خواہش کے مطابق اسکا اکناف چاہتا ہے۔ ان سہہ رنگی کہانیوں میں خالد بشیر تلگامی بہت کچھ کہتے ہیں۔ لیکن حاصل مختتم خیالی دنیا ہی ہے۔ اس پر شاید اعتراض کیا جائے کہ خیالی دنیا کیا بہتر نتیجہ پیش کرے گی۔ لیکن بشیر تلگامی کی تحریریںاس دنیا کی جانب مبہم اشارے رکھتی ہیں جہاںادب آپ کو چاہتا ہے۔ جہاں فرد کو معاشرہ اور معاشرے کو فرد جالب کرتا ہے۔
بشیر احمد کا قلمی نام خالد بشیر تلگامی ہے۔ اس مصنف نے اپنے تعارف میں خصوصی طور پر یہ قلمبند کیا ہے کہ ان کا ادبی نظریہ ’’ ادب برائے ادب ‘‘ ہے۔ حالانکہ اب اس طرح کی بحثوں کی گنجائش کم ہی رہ گئی ہیں لیکن اس کے باوجود اب بھی اس طرح کی اصطلاحوں سے اپنی تحریرکی راہوں کی نشاندہی کرنا شاید ٹھیک عمل نہیں اس کی وجہ آج کا قاری ہے جسے کہانی کار سے ما سوائے واقعے کے کچھ درکار نہیں۔ وہ کہانی پڑھتا، سنتا اورسوائے اپنے فکری ذائق کے مطابق کم و زیادتی کو طے کر قبول کرتا ہے۔افسانوں پر طبع آزمائی کرتے ہوئے خالد تلگامی نے افسانچوں کی جانب بھی توجہ دی ہے۔ ان کے افسانچوں کی ابھی تک کی تعداد جو مصنف نے خود بتلائی وہ تقریباً 150سے زائد ہیں۔ لکھنے کا شوق کیسے ہوا اس بارے میں کہتے ہیں :
’’میری خوش بختی یہ بھی ہے کہ میں ایسی ہستیوں کے سایے میں بڑا ہوا ہوں ، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ میرا رجحان ادب کی طرف بڑھ گیا اور میرے اندر کا ادیب جاگ اٹھا اور مجھے لکھنے پر مجبور کیا، جب میرے ادبی سفر کا آغاز 2010 میں ہوا ۔‘‘
دکھتی رگ ، خالد بشیر تلگامی، صفحہ نمبر 39
مصنف نے افسانچے لکھنے کا آغاز 2016میں کیا اور پہلی کہانی ’’روح ‘‘ لکھی۔اس کے بعد اس صنف پر زور دیتے رہے ہیں۔ ان کا ایک وہاٹس ایپ گروپ ’’ گلشن افسانچہ ‘‘ ہے جس میں درو ن و بیرون ملک کے افسانچہ نگار اور ناقدین شامل ہیں۔ ان کے اکثر افسانچے میں نے اس گروپ میں پڑھے ہیںاور جب کتاب ہاتھ لگی تو اس پر اپنی رائے قلمبند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔یوں تو خالد بشیرتلگامی کی تحریروں پر اس سے قبل ’’نورشاہ، ڈاکٹر نعیمہ جعفری، تنویر اختر رومانی، ایم مبین ، پروفیسر اسلم جمشید پوری‘‘ جیسے محب ادب لکھ چکے ہیں۔لیکن میرا مقصد خالد بشیر کی کہانیوں میں موجود معاشرے کے زحف، فرد کی دہقانیت و فہمائش ا ور خالی خط کی نشاندہی کی ممکنہ کوشش ہے جسے مصنف نے اپنی کہانیوں میں عنکبوت کے جال کی مانندتیار کر نذر قاری کیا ہے۔
’’گفتاری کا آغاز ‘‘ایک معاشرتی افسانچہ ہے۔ اس افسانچے میں ایک خاص تہذیب کے پیروکاروں اور ان کے طرز زندگی کے مثبت و منفی کو پیش عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔مسلم معاشرے میں ایک بڑی خامی جسے شاید ہند و سندھ سے کبھی دور نہ کیا جا سکے وہ ہے دوغل ذات ۔ ہم میں سے بیشتر مزاج مختلف لوگوں ، حالات ، مسائل و مجبوری کے تحت دوغلے ہوجاتے ہیں۔ واضح کردوں کہ یہ کوئی منفی بات نہیں۔ کیوں کہ منافقت پسند دنیا میں گر جینا ہو تو کیا کریں؟؟؟؟۔لیکن معاملات اس وقت بہت حساس ہو جاتے ہیں جب ہم مذہب کو اپنی اس فطرت کے ساتھ تجرید کر چھوڑتے ہیں۔یعنی ہم دین حق میں اپنے دوغلے ہونے کا ثبوت اس طرح جواز کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ بس کیا کہنے!!!!!۔۔۔ عش عش کرنا اور حیرت زدہ رہ جانا جیسی اصطلاحیں بھی بعض معا ملات میں کم محسوس ہوتی ہیں۔ مذہب اسلام کے پیروکارجب دہری زندگی گزارنے لگتے ہیںتو ان کے پاس ظاہر اور باطن کے علاوہ درون و بیرون مکان جیسی زندگی بھی پنپنے لگتی ہے اور یہ لوگ اپنے گھر کے اندر کچھ اور باہر کچھ کے اس قدر عادی ومعاملہ شناس ہو چکتے ہیں کہ ان کی زندگی کا دہرا پن ان کے لیے کوئی عیب نہیں رہ جاتا ۔ حد تو یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ اس کے لیے مذہب سے ایسے ایسے جواز کھوج لاتے ہیں جس کا جواب عام پیروکار دے ہی نہیں سکتا۔ ’’ گفتار کا غازی ‘‘ در اصل ایک ایسے ہی مذہبی پیشوا کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں جہاں یہ پیغامبر دین حق کے مسائل و فضائل کو جگ ظاہر کر رہا ہے ۔ لوگوں کو اپنی خوش لہن طرز ادا سے دین کا کم اور اپنا زیادہ گرویدہ کر رہا ہے وہیںیہ اپنی گھریلو زندگی میں ایسی فکری کج روی کا شکار ہے جس سے فرار اس کی فطرت کے عین منافی ہے۔ یہاں ایک اہم بات یہ بھی بتلادوں کہ اس کی اس فطرت کا نقصان اس کی اپنی ذات کو کم اس سے متصل افراد کو زیادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
جیون ساتھی مل جانا اور اچھا والا مل جانا ایسا مرحلہ نہیں جسے سہل جانا جائے۔ مرد کے لیے بہترین عورت اور خاص کر ایک اچھی عورت کے لیے بہترین رفیق زندگی ملنا مشکل ترین معاملات ہیں۔ مرد اپنے تئیں یہ محسوس کرتا رہتا ہے کہ وہ اپنی شریک کے لیے سب کچھ کر رہا ہے اور وہ اس کا خیال اس طرح نہیں رکھ پا رہیں جیسا کہ مرد کا حق تھا۔ جبکہ یہی معاملہ شریک کا ہوتا ہے کہ اس کی شکایت کے مطابق اسے وہ حق حاصل نہیں ہو پاتا جو اس کا تھا یا اس کا عہد سامنے والے نے اس کے نفس کو علی الاعلان مسجدیا مجمع میں حاصل کرتے وقت کیا تھا۔یہ مسئلہ بحث طلب ہے لیکن یہاں میرا مقصد ایک اور مسئلہ کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے جسے بشیر تلگامی نے اپنی کہانی میں برتا ہے۔ یہ مسئلہ ہے نیک بیوی اور اچھے شوہر کے درمیان کا وہ رشتہ جو آہستہ آہستہ ماند پڑ کر بس رشتہ ازدواج یا جنسی ضرورت بن کر رہ جاتا ہے۔ اس میں شوہر کسی بغیر مغز کی مانند کام کرتا اور رقم اکھٹی کرتا اور گھر والوں کو پالتاہے۔ جبکہ بیوی ایک ٹرانس زدہ زندگی گزارتی بس صبح و شام گھر سنبھالتی ہے۔اس زندگی میں کوئی اتار چڑھائو کی گنجائش کم ہی نظر آتی ہے۔ مختصر خوشیاں اور اکتفا والی زندگی کا منظر نامہ ۔ اس طرز زندگی کو ہم میں سے اکثر جیتے ہیں لیکن اُف کرنے یا محسوس کرنے سے حاصل کچھ نہ ہونے پر ما سوائے ذہن و قلب کو اس فکر سے دور کرنے کے کچھ نہیں کرتے ۔ لیکن حقیقت کا کیا کیجئے وہ تو حقیقت ہے ۔ہاں ہم جیتے ہیں اور اس طرز پر ہمیشہ جیتے ہیں۔ البتہ جب اس رد کردہ یا دبی ہوئی کیفیت کو کوئی کرید دیتا ہے تب آنکھ کھلنے کے بجائے آنکھ چرانے والی حس زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔کہانی’’ روبوٹ ‘‘ملاحظہ کیجئے :
’’بچہ موبائیل فون پر کارٹون دیکھ رہا تھا۔اسکرین کو غور سے دیکھتے ہوئے اچانک چہک کر بولا ۔’’ پاپا، پاپا ۔۔۔۔ دیکھیے یہ عورت اس موبائیل میں کیسے فٹا فٹ روٹی ، سبزی ، چاول ، چائے ، سب کچھ تیار کر رہی ہے۔۔‘‘
باپ نے سمجھایا ۔’’ ارے بیٹا ۔!۔۔۔ یہ عورت نہیں ہے۔۔۔ یہ ایک روبوٹ ہے۔۔۔۔ اس کو جو حکم دیا جائے بس کام پر لگ جاتا ہے۔۔۔ کسی بات کا انکار نہیں کرتا۔۔۔۔ اس کو نہ کبھی غصہ آتا ہے اور نہ کبھی تھکن محسوس کرتا ہے ۔‘‘
اتنا کہہ کر اس نے بیٹے سے پوچھا۔’’ جانتے ہو ربوٹ کیسا ہوتا ہے ؟‘‘
بچے نے فوراً جواب دیا ۔’’ ہاں پاپا۔۔۔۔ ممّا جیسا۔‘‘
بشیر تلگامی کا ایک اور افسانچہ’’ بلیدان‘‘ ہے۔ اس کہانی میں جس طرح کی منظر نگاری ہوئی ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے۔اوپر کے تبصرے کے بعد فوری اس کہانی کو پیش کرنے کا مقصد ایک ایسی ذات کی حالت زار کو پیش کرنا ہے جسے معاشرے نے کبھی اس کا مقام دیا ہی نہیں۔ وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ حاصل نہیں کر پاتا جس کی اسے خواہش ہے۔اس کی مجبوریوں اور اس کے ساتھ بیتی تمام وارداتوں کا حال بہت کم پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے متصل حالات اور اس کے مسائل کو پیش کرنے کی ضرورت شاید معاشرے کو اس لیے لازمی نہیں لگتی کیوں کہ وہ بھی ایک مرد ہے۔ اور جیسا کہ لازم ہے کہ مرد کو ہمت اور حوصلے کا ایسا پیکر ہونا چاہئے جو مثالی ہو۔ افسوس کا مقام ہے ۔ ہم سماج کے ایسے فرد کو در گزر کرتے ہیں جو اس کی بنیادوں میں ایسا رچا بسا ہے کہ اس کے بغیرسماج کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ میں یہاں جس کردار کی بات کر رہا ہوں وہ ’’ باپ ‘‘ کا ہے۔ ہم اس کردار کو عموماً اس طرح پیش کرنے کے عادی ہیں کہ یہ یا تو شوہر ہوتا ہے۔ یا ظالم باپ، یا کہ مشقت و محنت کش فرد ۔۔۔۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسے کبھی انسان کا درجہ ہی نہیں دیا جاتا ۔
تلگامی کی کہانیوں میں وقت اور موقع کے مطابق رونما ہونے والے اہم واقعات بھی جگہ پاتے ہیں مثلاً ان کا افسانچہ ’’ اعتماد ‘‘ جو کہ در اصل دو چاہنے والوں کے درمیان ایک ایسی کہانی پیش کرتا ہے جس میں محبت و رغبت کے علاوہ حقیقت اورمطلب پرستی کے عنصر موجودہے۔ ایک لڑکی جو اپنے محبوب سے کچھ وقت تک بات نہیں کر پاتی، جس وجہ سے اس کا عاشق بے چارہ اس طرح بے چین نظر آتا ہے جیسے روح جسم سے جدا ہو رہی ہو اور پھر جب وہ بات نہ ہونے اور ملنے نہ آنے کی وجہ جانتا ہے تو اس طرح اس سے کنارہ کشی کرلیتا ہے جیسے وہ اور اس کی محبت ما سوائے ایک حباب کے کچھ نہ تھی۔وجہ صرف اتنی ہوتی ہے کہ اس لڑکی اور اس کے گھر والوں کو کورونا جیسے مرض نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس کہانی کا اختتام اس لڑکے کے منفی دفاعی نظام کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اسے اپنی اور اپنے خاندان کی اس قدر فکر لاحق ہوتی ہے کہ وہ اپنی محبوبہ، اپنی معشوقہ ،اپنی جان قلب ،اپنی روح بہار ،اپنی زندگی کوجسے حاصل کرنے کے لیے وہ اسی سے سب کچھ کر گزرنے کا وعدہ کیے بیٹھا تھا اس کی کال اس آسانی سے کاٹ دیتا ہے جیسے وہ اسی جانتا ہی نہیں۔
ان کی بیشتر کہانیاں اسی طرز ادا سے متاثر ہیں۔ ان کے پاس معاشرہ اور اس کے افراد دونوں ہی زندہ اور زندگی سے بھرپور ہیں۔ ان کے کردار اچھائی اور برائی دونوں کا سر چشمہ ہیں۔ نہ تو وہ مکمل فرشتے ہیں نا ہی ان کے اندر شیطان رہتا ہے۔ بلکہ وہ بس ہمارے معاشرے کے سیدھے سادے انسان ہیں جو ہماری ہی طرح سانس لیتے ہیں جو چلتے پھرتے ہیں جو سوچتے اور سمجھتے ہیں اور جو ہماری طرح عیوب کے ساتھ عمل در عمل کرتے چلے جاتے ہیں۔
