بے وطنی کا کرب تمام عمر ساتھ رہا ۔
جب تک میری نظمیں۔!!!!
میرے دوستوں کو خوش کرتی ہیں۔!!!
اور میرے دشمنوں کو اپنے بال نوچنے پر مجبور کرتی ہیں!!!!
میں شاعر ہوں اور میں کہتا رہوں گا نظمیں“!!!!!
محمود درویش 1941ء میں البروا نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔”البروا”، جو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ فلسطین کے عقہ ضلع سے 9 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اس کی وجہ شہرت وہ مختصر سی ابادی تھی جو دو ہزار افراد پر مشتمل تھی ، اس کے علاوہ اس کے بالائی پہاڑیوں کی موجودگی بھی لوگوں کے لیے باعث توجہ تھی۔
ابھی یہ بڑھنے پھلنے پھولنے بھی یہ پایا تھا کہ اسرائیل کے عتاب کا نشانہ ایسا بنا کہ پے در پے آفتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔کالے دیوؤں نے دوسرے گاؤں کی طرح بھی بروا میں ظلم و تشدد کی انتہا کردی تاکہ حقیقی باشندے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر یہاں سے ہجرت کرکے جائیں۔
اسرائیلی جنگ کے دوران ہی انہوں نے اپنے بچپن میں ہی جلا وطن ہونے کا کربناک تجربہ کیا ۔ ان کے خاندان نے بیروت ہجرت کی اور وہاں کی پناہ گزینی اختیار کر لی ۔
ان کا شمار اہم ترین فلسطینی اور عرب شاعروں میں ہوتا ہیں ، جن کا نام شاعری سے ایسا جڑا کہ وہی ان کی وجہ شہرت اور پہچان بنا۔ انقلاب اور وطن کے بارے میں، جیسا کہ اس کا خاندان 1948 میں فلسطینی پناہ گزینوں میں شامل ہوا، اٹھارہ سال کی عمر میں ہی درویش کا پہلا شعری مجموعہ 1960ء کو منظر عام پر آگیا ۔
، باوجود اس کے کہ انہیں نہ صرف شاعر کی حیثیت سے عزت و شہرت ملی کی بلکہ ان کی کتابوں کو عرب دنیا کے ممالک میں دس لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
خاص طور پر فلسطینی، اپنی حب الوطنی پر مبنی نظموں کے لیے جانے جاتے ہیں، ان کا نام محبت اور عقیدت سے لیا جاتا ہے ۔ اعلیٰ درجے کا عمدہ ادب، اس کے علاوہ وہ ایک اچھے نقاد تھے، اور کئی رسائل کے لیے بطور صحافی بھی کام کیا۔ ان میں ان کے بہت سے مختلف مضامین تھے، جن میں ہمیشہ وطن کی اصطلاح چھائی رہتی تھی اور محبت، پرانی یادیں .
اس نے ڈاسپورا (Diaspora) تارکین وطن کے سفر کو شاعر عظیم کی طرف موڑ دیا، اس شاعری کی طرف جس میں اس نے وطن کی محبت کو خاتون عزیز کے ساتھ ملایا، لبنان، شام کے درمیان سفر کیا۔ ، قبرص، مصر، اردن، تیونس اور پیرس، (Egypt,Syria ,Jordan Lebanon Cyprus Tunisia)
1982 سے سفر کیا.
درویش کی نظموں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا بلکہ قابل فخر ہے یہ بات کہ انہیں بہت سے انعامات نوازا گیا، جیسے: لوٹس پرائز، ابن سینا پرائز، لینن پرائز، اور بہت سے دوسرے بین الاقوامی انعامات سے نوازا گیا۔وہ ادب سے دلچسپی رکھتے تھے ، اس حقیقت کے علاوہ کہ ان کے بھائی ذکی بھی افسانہ نگارتھے۔ جہاں تک محمود درویش کا تعلق ہے، وہ اس گاؤں میں نہیں رہے، بلکہ اسے “الجدیدہ” نامی گاؤں میں بطور استاد کام کرنے کے لئے بلایا گیا ۔
وہ بہت زیادہ علم و ادب کا شغف رکھتے تھے، اور شاعری لکھنے کی کوشش کرتے تھے ، اور یہ بات قابل غور ہے کہ اس نے اس وقت ڈرائنگ کو ایک ہنر کے طور پر سنبھالا تھا،
وسائل کی کمی کے باعث ڈرائنگ سے محرومی نے ان کے ذوق و شوق کا رخ شاعری کی طرف موڑ دیا۔ بچپن میں اپنی صلاحیت سے باہر چیزوں کے بارے میں لکھنا محمود درویش کا معمول بن گیا۔سیاست سماجیت،محبت،وطنیت، حریت جیسے موضوعات کو قلم بند کیا۔
محمود درویش نے اپنی شاعری میں عورت کا بہت تذکرہ کیا اور درویش کی شاعری میں عورت باقی شعراءسے الگ نظر آتی ہے ۔درویش نے وطن سے اظہار محبت کے لئے عورت کو بطور رمز استعمال کیا ہے،درویش نے تشبیہات اور استعارے وغیرہ میں عورت کو اپنے شعری کا حصہ بنادیا ۔
ان کی نظم ( عاشق جو فلسطین سے آیا ہے) کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
اس کی آنکھیں اور اس کی نقش ونگار فلسطینی ہے
اس کا نام فلسطینی ہے
اس کے خواب و خیال اور دکھ فلسطینی ہے
اس کا رومال، اس کے پیر اور اس کا بدن فلسطینی ہے
اس کے بول اور اس کی چپ فلسطینی ہے
اس کی حیات اور اس کی موت فلسطینی ہے
درویش یہاں پہ فلسطینی لفظ بار بار دہراتے ہے کیونکہ انہیں لفظ ” فلسطینی” میں محبت عقیدت کی وہ جھلک دکھائی دیتی ہے جسے ایک مظلوم ہی محسوس کرسکتا ہے
درویش کی شاعری میں فلسطینیوں کی ابتلا اور جدوجہد درویش کی شاعری کا مرکز و محور ہے ۔درویش کی شاعری غم ،رنج و الم ،احتجاج تک ہی محدود نہیں۔بلکہ درویش میں حب الوطنی ،وطن مالوف کی بربادی،غاصبوں کی تعدی ،جلاوطنی روداد ،نا مکمل محبتیں ،اشتیاق فراق اور زندگی کی چھوٹی بڑی خوشیاں اور غمی بھی موجود ہیں
In Memory of Forgetfulness
میں محمود درویش لکھتے ہیں ’’مجھے اپنا ہرا بھرا گاؤں یاد آتا ہے۔ اپنا بڑا سا گھر چنبیلی اور گلاب کے بوٹے‘ زیتون کے پیڑ‘
الغرض درویش نے اپنی شاعری سے فلسطین کا بیٹا ہونے کا حق ادا کیا ۔
آپ درویش کی اس نظم کو پڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں۔
جب میں جوان تھا
اور خوب رُو تھا
گلاب کا پھول میرا گھر ہوا کرتا تھا
اور چشمے میں میرے لیے سمندر تھے۔
گلاب کا پھول ایک زخم بن گیا
چشمے پیاس میں تبدیل ہو گئے
کیا تم بہت بدل گئے ہو؟ “
”نہیں، اتنا نہیں۔ “
جب ہم آندھی کی صورت
واپس اپنے گھر لوٹیں گے
میرے ماتھے کو غور سے دیکھنا
گلاب کا پھول کھجور بن گیا ہوگا
اور چشمے پسینہ۔
اور مجھے ویسا ہی پاؤ گے
جیسا ہوا کرتا تھا ۔
جوان اور خوب رو ۔
اور یہ عظیم شاعر کئی برس تک عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے بعد 2008ءمیں اوپن ہارٹ سرجری کے نتیجے میں ہوسٹن میں انتقال کر گئے۔۔۔آہ
جب احمد مرسل نہ رہے تو کون رہے گا۔انا للہ ونا الیہ راجعون اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی اس کاوش کے عوض شایان شان اجر سے نوازے ۔۔۔آمین