تحریر:حامد یزدانی
”تمہارے یوں ملنے کا جرمانہ یہ ہے کہ جتنے دن میں یہاں برلن میں ہوں، تم میرے ساتھ رہو گے۔ بولو، منظور؟“
اردو ادب کی بستی میں یادگار قصہ کہانیاں متعارف کروانے والے اپنی طرز کے آخری تخلیقی آدمی انتظار حسین صاحب میرے سلام اور تجدید تعارف کے رسمی جملے ختم ہوتے ہی چہک کر گویا ہوئے تھے۔ جرمن اتحاد کے بعد متحدہ برلن میں سہ روزہ بین الاقوامی اردو سیمینار اپنی نوعیت کا اولین ادبی اجتماع تھا جس کا انعقاد جرمنی کے عالمی ثقافتوں کے ادارے نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی جانی پہچانی مستشرق پروفیسر ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ کے تعاون سے کیا تھا۔
سوئٹزر لینڈ سے اردو کی استاد ڈاکٹر ارسلا روتھن ڈوبس کے علاوہ یورپ کے مختلف شہروں سے بھی متعدد لکھاری اس میں شریک تھے تاہم اہم ترین اور خاص مہمان تو پاکستان اور بھارت ہی سے آئے تھے جن میں قرۃ لعین حیدر، بلراج کومل، سریندر پرکاش، جمیل الدین عالی، افتخار عارف اور انتظار حسین شامل تھے جو اس وقت مجھ سے مخاطب تھے یا شاید میری بدحواسی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
”بھئی بولو، منظور؟“ مجھے خاموش دیکھ کر انہوں نے ایک شریر مسکراہٹ کے ساتھ اپنا سوال دہرایا۔
”جج، جج، جی، ٹھیک ہے۔ مگر کیا ہے کہ وہ میرے ساتھ میری کچھ ساتھی بھی ہیں جو کولون سے آئی ہیں اور پھر میری بیگم بھی۔“ میں نے رکتے رکتے کہا
”تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ کہاں ہیں تمہارے ساتھی؟ میں بات کرتا ہوں ان سے۔“ انتظار صاحب نے فوراً کہا
”جی، آپ کیوں زحمت کرتے ہیں، میں خود انہیں بتا آتا ہوں۔ ادھر ہی تو کھڑی ہے وہ ٹولی۔“ میں نے ہاتھ کے اشارے سے ریڈیو ڈوئچے ویلے میں اپنی ہم کار خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور قدم ان کی طرف بڑھادیا۔
”ارے، ارے کہاں چل دیے مجھے یہاں ان خشک ادیبوں میں چھوڑ کر ؟ میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔“ انتظار صاحب نے چائے کا آدھا خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے اور میرے ہم قدم ہوتے ہوئے کہا۔
”آپ یہیں رکیے، میں بس گیا اور آیا۔“ میں نے جلدی سے کہا اور سوچنے لگا کہ ساتھیوں سے معذرت کن الفاظ میں کی جائے۔ انتظار صاحب وہاں نہیں رکے۔
”اچھا تو مجھے ان حضرات کے پاس چھوڑ کر خود خواتین کی طرف جا رہے ہو۔ کہا نا میں بھی چلتا ہوں۔“
”جی ضرور، آپ چلنا چاہیں تو ضرور۔ میرا خیال تھا شاید آپ ملنے سے اجتناب کریں اس لیے میں نے۔“
”ملنے سے اجتناب؟ کس سے؟ اس پریوں کی ٹولی سے؟ کمال کرتے ہو تم بھی۔“ انتظار صاحب چہک کر بولے
”دراصل آپ اتنے بڑے تخلیق کار ہیں۔ میں نے سوچا شاید آپ۔“
”حد کرتے ہو بھئی۔ میں تو کہتا ہوں وہ فن کار ہی کیا جو حسن پرست نہ ہو۔“ انتظار صاحب نے میری سنجیدہ بات کو ایک کھلتے ہوئے قہقہے سے کاٹ دیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ میں اور میرے ہم عمر اکثر لکھاری پاک ٹی ہاؤس میں بھی انتظار صاحب سمیت سبھی سینئر ادیبوں کے میزوں کے پاس سے بھی انتہائی مودبانہ خاموشی سے گزرتے تھے۔ انتظار صاحب کے ساتھ بیٹھنے والے تو مظفر علی سید، مسعود اشعر، انیس ناگی، انور سجاد، کشور ناہید اور سعادت سعید کے قد کاٹھ کے لوگ تھے۔ نوجوانوں میں البتہ کراچی سے آئے آصف فرخی کو میں نے انتظار صاحب کے ساتھ گپ لگاتے ہوئے دیکھا۔ ورنہ ہماری تو مجال نہ تھی پاس پھٹکنے کی۔
ایک بار کراچی میں آصف کے ہاں لنچ کر رہا تھا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی بھی تشریف رکھتے تھے۔ آصف نے اچانک مجھ سے پوچھا کہ میں ان کے دوست یعنی انتظار صاحب کے پاس کیوں نہیں بیٹھتا؟ کیا جھجکتا ہوں؟ میں نے کہا: ”نہیں۔ میں ڈرتا ہوں۔ اتنے بڑے لکھاری سے کیا بات کروں گا۔ اگر کچھ پوچھ لیں گے تو کیا جواب دوں گا۔ کچھ پتہ وتہ تو ہے نہیں مجھے ادب کا ۔“ یہ سن کر آصف بھی ہنس دیے اور ڈاکٹر اسلم فرخی بھی۔ ”
سچی بات ہے حلقہ ارباب ذوق میں ان کا افسانہ سنا تو سنا، کبھی رائے دینے کی ہمت نہ کر پایا تھا۔ ہاں، حلقہ کے انتخابات میں دو بار ان سے ووٹ مانگنے ضرور گیا تھا وہ بھی دوستوں کے ساتھ یا پھر بطور جائنٹ سیکرٹری ان کے افسانے پر کی جانے والی گفتگو ریکارڈ کی تھی۔ باقی سب تعارف تو ان کی تخلیقات، ان کی کتابوں ”بستی“ ، ”دن اور داستان“ ، ”تذکرہ“ ، شہر افسوس ”،“ کچھوے ”،“ آخری آدمی ”،“ قصہ کوتاہ ”اور“ خیمے سے دور ”کی وساطت سے تھا۔
یا پھر اخبار“ مشرق ”میں ان کا کالم، چند ریڈیو اور ٹی وی پر پروگرام۔ بس یہی رسمی تعارف تھا اور مجھے وہ اپنی کہانیوں ہی کا کوئی اداس سا کردار لگتے تھے جو اپنی بستی کا راستہ بھول کر کسی اجنبی کہانی کی خواب ناک گلیوں میں بھٹک رہا ہو۔ عمر اور علم کا دوہرا فاصلہ مجھے ہمیشہ ان سے دور دور رہنے پر مجبور کرتا رہا۔ دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ وہ مجھے کبھی موجودہ عہد کے لگے ہی نہیں۔ وہ تو مجھے بدھا کے زمانے کے کوئی سادھو شاعر لگتے تھے۔ اس تخلیقی حسن پرست سے تو میں آج ہی مل رہا تھا۔
تو اس روز انہیں یوں سامنے، بے تکلف بات کرتے ہوئے دیکھ کر احساس کچھ متذبذب سا تھا۔
میں نے دیکھا کہ انتظار صاحب کو اپنی طرف آتے دیکھ کر سبھی خواتین مارے خوشی کے دو قدم آگے بڑھ آئی تھیں۔ وہ ان سب سے خوش دلی سے ملے اور حال احوال پوچھا۔ جرمنی کے موسم اور قدرتی حسن کے بارے میں کچھ جملے کہے اور پھر چائے پر ہلکی پھلکی مسکراتی، کھلکھلاتی بات چیت چلتی رہی۔ میری بیگم طاہرہ نے ان کی کتاب ”دن اور داستان“ اور اردو ادب کے جرمن تراجم والی کتاب آگے کردی:
”آٹو گراف، پلیز“
”اچھا تو یہاں بھی پہنچ گئیں میری کتابیں۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولے اور نیلے رنگ کے پین سے کتاب میں اپنی تصویر کے نیچے لکھنے لگے :
”حامد یزدانی اور طاہرہ بی بی:
برلن میں شاد آباد رہو اور باطن میں پاکستان کو آباد رکھو۔
انتظار حسین۔ ”
طاہرہ نے کہا: ”انتظار صاحب ہم برلن میں نہیں بلکہ دریائے رائین کنارے آباد اس سے بھی خوب صورت شہر کولون میں رہتے ہیں۔“
”ہمیں اپنے شہر دعوت دو گی تبھی اس کا نام لکھوں گا۔ ابھی تو برلن ہی چلے گا۔“ وہ ہنس کر بولے۔
اس کے بعد اردو سیمینار کے تب تک کے سیشنز پر تبصرے ہوئے۔ عالی جی کے ’مخمور‘ دوہے موضوع گفتگو بنے، لندن اور اسلام آباد کے درمیان جھولتے افتخار عارف کے جلدی چلے جانے پر اظہار خیال ہوا۔ ایسے میں میں نے انتظار صاحب سے ڈاکٹر انور سجاد کے بارے میں بھی پوچھ لیا کہ وہ کیوں نہیں آئے۔ مہمانوں کی فہرست میں سے صرف ایک وہی تھے جو لاہور سے آئے ہی نہ تھے۔
”اوہ، وہ انور سجاد۔ اس کی کیا پوچھتے ہو۔ کیا تمہیں واقعی نہیں پتہ وہ کیوں نہیں آیا۔ اچھے صحافی ہو تم! کیا سبھی ایسے ہی بے خبر صحافی ہوتے ہیں جرمنی میں؟“ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے۔ ”بھئی، پاکستان میں تو ساری فن کار برادری جانتی ہے اس کی وجہ۔“
”ان کے یہاں نہ آنے کی وجہ؟“ میں نے حیرت سے کہا۔
”نہیں، نہیں، یہیں نہیں، کہیں بھی نہ جانے کی وجہ۔ ہم سے بھی نہیں ملتا اب وہ۔“ انتظار صاحب کہہ رہے تھے۔
”اوہو، ایسا کیوں بھلا؟ آپ سے ناراض ہیں کیا؟ آخر ہو کیا گیا؟“
”عشق۔ عشق ہو گیا ہے حضرت کو ۔ اور وہ بھی عمر سے چھوٹی ایک خوش شکل اداکارہ سے۔ تو جناب بس۔ عشق نے غالب نکما کر دیا والی بات ہے۔ سمجھے؟“ وہ آنکھیں گھماتے ہوئے اور ہنستے ہوئے بولے۔
”ابھی ابھی تو آپ نے خود حسن پرست ہونے کا اعتراف کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ فن کار ہی کیا جو حسن پرست نہ ہو۔ تو بے چارے ڈاکٹر انور سجاد کسی پر عاشق ہو گئے ہیں تو آپ۔ میرا مطلب ہے، یہ کچھ دوہرے معیار والی بات نہیں؟“ میں نے ماحول کی بے تکلفی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
”ارے میاں، حسن پرستی تو ایک صحت مند روئیے کا نام ہے۔“
”اور عشق؟“ میں نے پوچھا
”عشق کی تعریف تو غالب نے کب کی کردی۔ ’خلل ہے دماغ کا ‘ “ ۔ انتظار صاحب نے کہا اور قہقہہ بلند کیا۔
پھر میرے قریب ہوتے ہوئے بولے :
”سنو، یہ جو بڑھاپے کا عشق ہے نا۔ نری تباہی بربادی ہے۔ کسی کام کا نہیں چھوڑتا بندے کو ۔“
”یہ تو دماغ کے خلل سے بھی آگے کی بات ہوئی؟“ میں نے بھی ہنستے ہوئے بات آگے بڑھائی۔
”ہاں، بالکل ایسا ہی ہے۔ اب تمہاری بیگم ساتھ ہے ورنہ میں تمہیں مشورہ دیتا کہ بھائی، عشق وشق کا ارادہ ہو تو اسی عمر میں کر مر لو، بعد میں تو بس انسان انور سجاد ہی ہوجاتا ہے۔“ وہ مسلسل کھلکھلا رہے تھے۔
ان کے قریبی دوست یقیناً ان کی شخصیت اور طبیعت کے اس شوخ اور چلبلے رخ سے واقف ہوں گے مگر میں نے انہیں ایسا کھل کر ہنستے ہوئے بھی پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ شاید وطن سے دور اہل وطن کے یوں مل جانے کا اثر تھا یا اوپر تلے جاری سنجیدہ ادبی نشستوں کے خلاف احتجاج۔ مجھے ٹھیک سے اندازہ نہ ہوا مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کی طبیعت مستی اور شوخی پر آمادہ تھی۔ کیا یہ ایک کپ چائے کا سرور ہے یا پھر حسن پرستی اور عشق کے موضوع کی ترنگ؟
میں سوچ رہا تھا۔ اتنے میں سیمینار کے اگلے سیشن کا اعلان ہو گیا۔ سب آڈیٹوریم کی طرف بھاگے جہاں ادبی تخلیقات سے پہلے کچھ موسیقی کا پروگرام ہونا تھا۔ میں نے موق غنیمت جانا اور انتظار صاحب سے ریڈیو کے لیے سوال جواب کی اجازت چاہی۔ طاہرہ میری منتظر تھی کہ اچانک کم گو اور کم آمیز ڈاکٹر ارسلا نے اس کا ہاتھ تھاما اور یہ کہتے ہوئے آڈیٹوریم کی طرف روانہ ہو گئیں :
”طاہرہ کو میں ساتھ لے جا رہی ہوں۔ ہم اچھی سہیلیاں بن چکی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ خوش ہیں۔ آپ کیجئے انٹرویو۔ ہم چلتی ہیں موسیقی سننے۔“
”ٹھیک ہے، چند منٹ ہیں تمہارے پاس اس سنجیدہ گفتگو کے لیے۔ اور بس۔ تو پوچھو کیا ہے سوال؟“ خواتین رخصت ہوئیں تو انتظار صاحب ایک کرسی کھینچ کر وہیں بیٹھ گئے اور میں نے بھی میز پر رکھے ٹیپ ریکارڈر کا بٹن دبانے میں تاخیر نہیں کی۔
حامد یزدانی: انتظار صاحب، سب سے پہلے تو آپ ہمیں یہ بتائیے کہ جرمنی کے عالمی ثقافتی ادارے کی جانب سے منعقدہ اس بین الاقوامی سیمینار میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ کیا محسوس کر رہے ہیں؟
انتظار حسین: صاحب، بہت خوشی ہوئی، کیوں کہ اب تک ہمارا تصور یہ تو تھا ہی کہ جرمن زبان کے دانشوران نے اور علما نے مشرقی کلاسیکی زبانوں کو بہت نوازا ہے، تسلیم کیا ہے۔ سنسکرت کو ، عربی کو ، فارسی کو ، لیکن اردو کو جو ان زبانوں کے مقابلے میں ایک نئی زبان ہے، اور کلاسیکی زبان کا درجہ یا رتبہ نہیں رکھتی، اسے ان کی جانب سے تسلیم کیا جانا اور نوازنا، یہ بہت عزت کا مقام ہے، ہمارے لیے اور اس زبان کے لیے کہ اسے اس قوم نے بالآخر تسلیم کر لیا ہے جو اب تک سنسکرت، عربی اور فارسی ہی کی قائل رہی ہے۔
حامد یزدانی: اردو کو دنیا کی ایک اہم قوم کی جانب یوں پذیرائی ملنا واقعی ایک قابل فخر بات ہے، مگر انتظار صاحب، یہ فرمائیں کہ عالمی ادب، بالخصوص جرمن ادب میں آپ کے پسندیدہ ادیب کون کون رہے؟
انتظارحسین: صاحب، جرمن ادب کا معاملہ تو یہ ہے کہ بعض فکشن لکھنے والے، خاص طور پر میرے لیے انسپیریشن کا ، فیض کا ذریعہ رہے ہیں، اور خاص طور پر دو لکھنے والے، ایک تو تھوماس من، ایک کافکا۔ اگر ان دو ادیبوں کی تخلیقات کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان دونوں کی تخلیقات میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔ دونوں الگ الگ کیٹگری کے اور الگ الگ طرز احساس کے لکھنے والے ہیں۔ لیکن ان دونوں ہی سے میرا عشق جو ہے، بڑا پختہ اور طویل رہا ہے۔
کافکا سے بھی میں نے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہے، اور تھوماس من سے بھی۔ تھوماس من کی مثلاً وہ کہانیاں اور وہ ناول، جن میں اس نے پرانی داستانوں کو لکھا ہے۔ انھوں نے گویا مجھے راہ دکھائی کہ داستانوی روایت کو آج کے زمانے میں اور نئے افسانوی اسلوب میں کس طریقے سے ڈھالا جا سکتا ہے اور با معنی بنایا جا سکتا ہے۔ تو میں بہت ہی قائل ہوں جرمن ادیبوں کا ، جیسے ہرمن ہیسے ہے اور دیگر لکھنے والے ہیں۔
حامد یزدانی: یہ جو کہا جاتا ہے کہ تخلیق کے دو بڑے محرکات ہیں۔ ایک خواب اور دوسرا سفر۔ تو آپ ان میں سے کسے بڑا محرک مانتے ہیں؟
انتظارحسین: دیکھیے، میرا معاملہ یہ ہے کہ سفر تو میں نے زندگی میں بہت کم کیے ہیں۔ تو میرے نزدیک، میری تخلیقات کا محرک اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ میرے خواب ہو سکتے ہیں۔ سفر تو میں نے کیا ہی نہیں۔
حامد یزدانی: انتظار صاحب، پاکستان میں تو آپ رہے ہیں، آپ کا تعلق ہے اور آپ جانتے ہیں کہ اردو برصغیر کی اہم زبان ہے۔ میں اگر آپ سے یہ کہوں کہ اردو زبان کی ترویج، فروغ اور مستقبل کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کا موازنہ کریں، تو آپ کیا کہیں گے؟
انتظارحسین: دیکھیے، مستقبل کا تو ہمیں کچھ پتا نہیں ہے، اس زبان کے، کیوں کہ ہندوستان میں تو بڑی ابتلا سے دوچار ہے یہ زبان۔ ان علاقوں میں بھی جہاں سے اس نے پرورش پائی، اور جہاں یہ بنی سنوری، تو وہاں اس کے لیے حالات بہت مشکل ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بھی اس زبان کے لیے حالات زیادہ سازگار نہیں ہیں۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو سیاسی نوازشیں ہوتی ہیں کسی زبان پر ، اور حکومتیں جس طریقے سے نوازتی ہیں اور رد کرنے کی کوشش کرتی ہیں ایک زبان کو ، تو وہ اپنی جگہ اس زبان کو نقصان بھی پہنچاتی ہیں، اور فائدے بھی پہنچاتی ہیں۔
لیکن زبان کی اپنی بھی کوئی صلاحیت ہوتی ہے، اور اردو زبان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ درباروں سے اور حکومتوں سے کبھی زیادہ ہمت افزائی نہیں ملی اسے۔ پہلے بھی درباری زبان یہ بے چاری نہیں رہی۔ اس زمانے میں فارسی تھی۔ پھر انگریز اپنی انگریزی کے ساتھ آئے۔ اس وقت بھی نوازشات نہیں تھیں۔ اور پاکستان، جہاں ہمارا خیال تھا کہ بہت نوازا جائے گا قومی زبان کی حیثیت سے، وہاں بھی اس پر کوئی نوازش نہیں ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان کا ایک اپنا ایک جوہر ہے کہ وہ ہمیشہ مشکل حالات سے دوچار رہی، مگر وہ اب بھی جنوبی ایشیا کے لسانی تقاضوں اور ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ اس بنا پر وہ آج بھی جنوبی ایشیا کی لنگوا فرانکا کی حیثیت رکھتی ہے، رابطے کی زبان ہے میری دانست میں۔ جنوبی ایشیا کو اپنی ان ضرورتوں کا احساس ہے، اور اپنے تقاضوں کو سمجھتا ہے یہ علاقہ۔ تو کسی نہ کسی وقت میں شاید اس کے رویے میں تبدیلی آئے۔ اس زبان کے حوالے سے ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں۔
