
ہاف سینچری، پورے پچاس برس ، زندگی کے پچاس برس بہر حال ہر لحاظ سے بہت ہوتے ہیں ، دو دنوں کی رفاقت کے بعد بھی جدائی شاق گذرتی ہے تو پچاس برس کے بعد کسی عزیز اور محبوب سنگ آستاں سے اٹھ کر چلے آنا کرب ناک ہوتا ہے اور اس کرب اور درد کی کسک یقینی طور سہی نہیں جاتی اگر چہ سیاست میں رنگ بدلتے رہتے ہیں لیکن یہاں معاملہ الگ سا ہے ، غلام نبی آزاد صاحب نے اپنے استفعیٰ کی جو وجوہات بتائیں ہیں ان کا تجزیہ بعد میں لیکن ان کے الفاظ سے جو درد اور کرب چھلک رہا ہے وہ دل کو چھورہا ہے اور ان الفاظ کا جو متن ہے ،یوں بیان کیا جاسکتا ہے ،، نہ اس نے بلایا ، نہ دامن ہی پکڑا ، نہ آواز ہی دی ،یہاں تک کہ اس سے جدا ہوگیا میں ،،، پہلے غلام نبی آزاد کی سیاسی ا ور اس کی اٹھان کا مختصر سا خاکہ،، غلام نبی آزاد ڈوڈہ کی تحصیل گاندھو کے ایک گاؤں ’’ سوتی ‘‘میں ۷ مارچ ۱۹۴۹ کو پیدا ہوئے ، گاندھی میموریل سائنس کالج جموں اور اس کے بعد یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے ، اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بحثیت سیکریٹر ی فار بلاک کانگریس بھلیسا سے ۱۹۷۳میں کیا ،اس کے بعد پریذیڈنٹ یوتھ کانگریس کمیٹی رہے ، ۱۹۸۰ میں محترمہ شمیمہ دیو کے ساتھ ازدواجی زندگی شروع کی ، شمیمہ دیو جانی مانی سنگر ہیں اس لئے کسی تعار ف کی محتاج نہیں ، دو بچے صدم نبی اور بیٹی صوفیہ نبی ہیں ، ، چار وزرائے اعظم اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی ، نر سیمہا راؤ اور من موہن سنگھ کے ساتھ کام کیا اور اچھی خاصی قربتیں رہیں ، بہت اچھے اور مہذب پارلیمنٹرین مانے اورجانے جاتے ہیں ،آزاد صاحب نے جب کانگریس جوائن کی تو یہ پارٹی بھارت کی سب سے بڑی ، متحرک ، ہر دلعزیز اورگاندھی نہرو کی پارٹی تصور کی جاتی تھی اس لئے یہ کھمبوں کو بھی راجیہ اور لوک سبھا میں پہنچانے اور بٹھانے کی قوت رکھتی تھی ، اس کا بین ثبوت خود آزاد صاحب ہیں جنہیں ۱۹۸۰ میں پہلی بار مہاراشٹر سے انتخابات میں اتارا ،اور جیت گئے، ۹۰ ۱۹ ،۹۶ میں مہاراشٹر سے ہی راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہوئے اور نر سیمہا راؤ کی حکومت میں پارلمنٹری افئیرس اور سول ایویشن کی وزارت سنبھالی ، جموں و کشمیر سے راجیہ سبھا کے لئے ۳۰ نومبر ۱۹۹۶ تا ۹۲ نومبر ۲۰۰۲ تک رہے ۲ نومبر ۲۰۰۵ جموں و کشمیر کے چیف منسٹر کی حثیت سے پد سنبھا لا ،اس کے علاوہ بھی مرکز میں منسٹری کے عہدوں پر فائض رہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ جس بھی ڈیپارٹمنٹ کا چارج سنبھا اس میں بڑی انقلابی تبدیلیاں کیں ، اور ہمارے سامنے ان کا جو چیف منسٹر کی حثیت سے وقفہ ہے ، میری ذاتی رائے کے مطابق بڑا شاندار اور جاندار رہا کیونکہ صرف تین سال کے عرصے میں انہوںنے کئی بڑے پروجیکٹ نہ صرف مکمل کئے بلکہ یوں لگتا تھا کہ تعمیر و ترقی پر واقعی سرکار مر کوز ہو چکی ہے ،ظاہر ہے کہ ان کا سیاسی سفر شاندار رہا ہے اور وہ اس پارٹی سے جڑے تھے جہاں سے آزاد کو پرجیکٹ کرنے میںکوئی مشکل اور کوئی زیادہ عرصہ نہیں لگا ، اس طرح وہ کانگریس کی ہی پیداوار ہیں لیکن اپنی صلاحیتوں کی بنا پر کانگریس پارٹی میں اپنا حق ادا کر دیا ہے ، بی جے پی سر کار نے ماضی قریب میں انہیں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا ہے اور اس وقت اس خیال نے شدو مد کے ساتھ جنم لیا تھا کہ شاید وہ بی جے پی جوائن کرنے والے ہیں ۔ لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا ،اور آج بھی حالات اس طرف اشارہ نہیں کرتے
، اب یہ بات کہ آزاد صاحب نے کیوں اس پارٹی کو خیر باد کیا جہاں سے انہوں نے نہ صرف ابتدا کی بلکہ شاندار سیاسی زندگی کے پورے پچاس برس کلیدی عہدوں پر گذارے اور ہمیشہ اس پارٹی میںقابل احترام اور پُر وقار رہے ،،، ۲۶ اگست ۲۰۲۲ کو انہوں نے کانگریس سے اتنے لمبے عرصے کے بعد اپنی راہیں الگ کردیں بلکہ بنیادی ممبر شپ سے مستعفی ہوئے اور سونیا گاندھی نے بھی انہیں آواز دینے کے بجائے بغیر کچھ کہے سنے جانے دیا ، جس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ شاید وہ بھی آزاد سے اسی قدر خفا تھیںاور اب ان سے پیچھا چھڑانے ہی میں اپنی عافیت خیال کرتی تھیں ، ، جہاں غلام نبی آزاد کے بیانیہ کا انداز اور متن کا تعلق ہے وہ یہی ہے کہ کانگریس پارٹی میں اب سینئر رہنماؤں کی عزت نفس پامال تھی ، مشوروں میں شامل نہیں کیا جاتا تھا ، اور دوسرے الفاظ میں یہی کہ پارٹی کمانڈ اب اس درجے کے رہنماؤں کو بھی خاطر میں نہیںلاتی تھی ، بہ ظاہر ان الفاظ سے عزت نفس اور پارٹی میں ان کے مشوروں کو نظر انداز کرنے کا معاملہ بنتا ہے اور یہ اس حد تک آگے بڑھ چکا تھا کہ پچاس برس کی وفاؤں ، قربت اور نزدیکیوں کونظر انداز کرکے کانگریس سے جدائی کا غم برداشت کرنے پر مجبور ہوئے ۔کیا یہی سچ ہے ؟ یا کوئی اور عوامل بھی رہے ہوں گے ؟ کیونکہ سیاست داں بہت کم دل اور جذبات کی بات سنتے اور مانتے ہیں بلکہ وہ محظ اپنے مفادات کے لئے ہی پارٹیوں سے جڑے رہتے ہیں ، اس دوران جی ۲۳ کے چند ممبراں نے بھی ان سے ملاقات کی ہے، گروپ پارٹی میں اصلاحات کا خواہاں ہے۔ آزاد سے ملاقات کرنے والوں میں اسٹیرنگ کمیٹی کے چئیر مین آنند شرما بھی تھے جنہوں نے پہلے ہی اس پد سے استفعیٰ دیا ہے ، ظاہر ہے کہ کانگریس کے اندرون خانہ انتشار اور اضطراب کی کیفیت ہے ، لیکن ایسی کیفیت دو وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے ایک یہ کہ وہ جو آزاد صاحب بیان کر چکے ہیں ۔اس میں ایک اہم بات یہ کہ انہوں نے اپنی ہائی کمانڈ کو ایک خط لکھا تھا جس میں کانگریس کی پالیسی اور کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی تھی ، ، آزاد صاحب کہتے ہیں کہ ہماری تجاویز کو تعمیری نہیں سمجھا گیا جس کی وجہ سے انہیں شاید نظر انداز کرکے ان کی انا اور خود داری کو ٹھیس پہنچی ہے اور جن کی بنا پر وہ مستعفی ہوچکے ہیں ، رہی یہ بات کہ کانگریس کی لیڈر شپ کیسی بھی ہو بر صغیر میں یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ جمہوریت بھی وراثت ہی کے اصول پر گامزن ہے جس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں ، شیخ محمد عبداللہ کے بیٹوں کے بغیر این سی میں کیا رہ جاتاہے ،؟ یہی حال دوسری ریاستوں کا بھی ہے جہاں مجموعی طور پر بیٹے اور بیٹیاں سیاسی دکانیں سنبھا لے ہوئے ہیں ، یہ اختلاف کی کوئی وجہ نہیں رہی ہوگی، ہاں یہاں صرف وارث کا طرز عمل ا ور اپنے سینئروں کے ساتھ ’’رویہ ‘‘ کاونٹ کرتا ہے د وسرا یہ کہ جب کبھی سیاسی میدان میں دوڈنے والے گھوڈے کی رفتار اختتام تک پہنچتی ہے اور اس میں ریس کا دم خم نہیں رہتا ، تبھی یہ حالات پیدا ہوتے ہیں ، یہاں دونوں وجوہات قابل فہم نظر آتی ہیں ، یہ عیاں ہے کہ سارے ملک میں دہائیوں کانگریس کا سور ج چمکنے کے بعد اب اس کی تمازت ماند پڑ چکی ہے کیونکہ بھارت میں بی جے پی جس بیانیہ کے ساتھ اور جس طرز عمل کے ساتھ آگے بڑھی ہے اس نے کسی جمہوری اور سیکولرپارٹی کے لئے کوئی سپیس نہیں چھوڈی ہے ، اور آئیندہ بھی مستقبل میں جب انتخابات ہوں گے تو ان کا بیانیہ نچلی سطح پر قبول کیا جائے گا جو بھارت کا اصل وؤٹ بینک ہے ، اس کے لئے تعمیر و ترقی ، غربت، تعلیم صحت اور دوسریے معا ملات ترجیح نہیں بن سکتے ، دوئم کانگریس نے اپنا سیکولر مکھوٹا اس قوت اور تمازت کے ساتھ بر قرار نہیں رکھا یا نہیں رکھ پائی بلکہ نرم ہندوتا کو لے آگے بڑھنے کا غلط فیصلہ کیا ، یہ دونوں باتیں ہیں جن کی بِنا پر کانگریس کا مستقبل قریب میں ملک کی سیاست میں کوئی اچھی خاصی جگہ پانا مشکل ہی نظر آتا ہے ،، اب آئے اس طرف کہ غلام نبی آزاد جو زندگی کے بیشتر حصے میں کانگریس میں خاصے مقبول اور اہم پدوں پر فائض رہے ہیں اب کیا کرنے والے ہیں ، اس بارے میں بہت سارے مفروضات آگے بڑھائے جارے ہیں جن کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے ،، پہلی بات یہ کہ کیا غلام نبی آزاد واقعی بی جے پی جوائن کرنے والے ہیں جس کی وہ خود شدت کے ساتھ تردید کر رہے ہیں ، بلکہ یہاں تک افواہیں اور سر خیاں لگائی جارہی ہیں کہ وہ جموں و کشمیر کے نئے چیف منسٹر ہوں گے ،، یہ مفروضے ہیں ،ظاہر ہے کہ وہ چیف منسٹر تبھی ہوں گے جب بی جے پی جوائن کریں گے ،، اور سیاسی آسمانوں میں یہ کوئی انہونی بھی نہیں ہوگی ، لیکن میرے اپنے اندازے کے لحاظ سے یہ قرین قیاس نہیں ،،،کیونکہ بی جے پی اور ان کی اپنی فکر میںیوںتو کوئی میل نہیں ،، اور شاید آزاد صاحب محظ کسی کلیدی اور بڑے پد کے لئے بی جے پی میں جوائن نہیں کریں گے ، دوسرا اوپشن ان کے ئے جموں و کشمیر کی اور کوئی مینسٹریم پارٹی بھی ہوسکتا تھا لیکن یہ سرے سے احمقوں کی بڑ ہوگا کیونکہ ان کا قد مرکز میں اور جموں کے ناردرن مسلم ائریاز میں ہمارے مینسٹریم لیڈروں سے کافی اونچا ہے اس لحاظ سے کہ انہوں نے جموں و کشمیر کی سرکار کامیابی کے ساتھ چلائی ہے اور ان کے بارے میں عوام کا یہ خیال موجود ہے کہ وہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر اور اس لحاظ سے بھی دیانت دار ہیں کہ کسی مالی سیکنڈل میں ملوث نہیں ، اندرونِ وادی بھی ان کے لئے ایک بڑی تعداد عوام کی ہے جو ان کے بارے میں سافٹ کارنر کی حامل ہے ،، کیا یہ بات انہیں ایک نئی پارٹی تشکیل دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار کر سکتی ہے ؟ یہ مشکل نہیں لیکن میرے خیال میںشاید اس کے لئے بہت دیر ہوچکی ہے کیونکہ ایک نئی پارٹی کی تشکیل وقت بھی مانگتی ہے، اور اَن تھک محنت بھی ، اگر چہ آزاد صاحب صحت کے لحاظ سے کافی ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں اور دوڈ دھوپ کے لئے اپنے آپ کو فٹ بھی محسوس کرتے ہوں گے لیکن ان کا مقابلہ دوسری پارٹیوں سے سخت ہی رہے گا ، ابھی نئی پارٹی کی سن گن پاتے ہی ’’اپنی پارٹی‘‘ کے سر براہ نے یہ الارمنگ بیان دیا ہے کہ ۳۷۰ اور ریاست کے ادغام میں آزاد صاحب نے ایک اہم رول ادا کیا ، ہے ، اگر چہ کشمیری عوام نے اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے لیکن اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہاں کی مینسٹریم پارٹیاں ایک نئی مینس ٹریم پارٹی کے وجود سے کسی طرح خوش نہیں ہوں گی ، اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر غلام نبی آزاد نے واقعی ایسا کوئی فیصلہ کیا ، جموںکا مسلم بیلٹ شاید پورے کا پورا ، آزاد کو سپورٹ کرے کیونکہ ان کی کار کردگی وہاں اپنے دور میں خاصی رہی ہے اور وہ لوگ جو وادی کے مینسٹریم سے اچھی طرح واقف ہیں شاید ’’ایک بار ایک موقعہ ‘‘ خیال کے تحت انہیں سپورٹ کریں ، این سی کا ماضی اب دھند میں نہیں اور پی ڈی پی نے تو عوامی منڈیڈیت کے خلاف یہاں بی جے پی کی ڈولی کوسر زمین کشمیر پر اتارا تھا ،، اور اپنی پارٹی کو ابھی تک بی جے پی کی بی ٹیم ہی سے خیال کیا جاتا ہے میرے خیال میں بات کہیں نہ کہیں عوام کے دلوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے ، یہ خیال انہیں جموں و کشمیر میں ایک نئی پارٹی کے قیام کی طرف گامزن کر سکتی ہے ، لیکن وہ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی جلد بازی نہیں کریں گے ، بلکہ اپنی طبیعت اور ٹھنڈے مزاج کے مطابق بہت غور و فکر کے بعد ہی فیصلہ لیں گے۔
