تحریر:فاروق بانڈے
کانگریس کے ساتھ ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد غلام نبی آزاد نے اپنے راستے الگ کر دئے۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا۔ اس کی اسکرپٹ تقریباً ڈیڑھ سال پہلے یعنی جنوری 2021 میں ہی لکھی گئی تھی۔ راجیہ سبھا سے الوداع کے دوران ان کے جذباتی ہو جانے اور وزیر اعظم مودی کی طرف سے ان کی تعریف، پدم بھوشن حاصل کرنے کے بعد کہا جا رہا تھا کہ آزاد کی اگلی اننگز اب بی جے پی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ تاہم ان کے بی جے پی میں شامل نہ ہونے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ آزاد نے جموں و کشمیر سے قومی سیاست میں اپنا قد کاٹھ تو بنا لیا تھا لیکن پچھلے کچھ سالوں سے وہ بے چینی محسوس کر رہے تھے۔ راجیہ سبھا سے الوداع کے بعد انہوں نے جموں میں جی ۳۲لیڈروں کو متحرک کرکے طاقت مظاہرہ بھی کیا۔تب خیال کیا جا رہا تھا کہ اس شو آف پاور کے ذریعے وہ نئی پارٹی کا اعلان کر سکتے ہیں۔ لیکن سب کچھ چلتا رہا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی میں شامل نہ ہونے کی وجہ پانچ دہائیوں سے کانگریس کے نظریے کو جوڑنا ہے، جو ان کے خون میں نقش ہے۔دوسرا، یہ بھی تھا کہ آزاد کو ان کی سیکولر شبیہ اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں طور پر قابل قبول بی جے پی کے طور پر قبول نہ کیا جائے۔ تیسرا، بی جے پی میں 73 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو فعال سیاست کے بجائے گائیڈ بورڈ میں رکھا جاتا ہے۔
4ستمبر کو آزاد جموں آرہے ہیں اور وہاں پر ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں شاید اپنی نئی سیاسی جماعت کے خدو خال کے بارے میں بھی بات کریں گے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آزاد کے کانگریس چھوڑنے اور ایک نئی پارٹی بنانے کے اقدام سے بی جے پی کافی متحرک ہو گئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں مرکز کسی بھی وقت جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا اعلان کرسکتی ہے، کیونکہ اس وقت انہیں اپنی جماعت کے جموں کشمیر میں چیف منسٹر بنانے کے امکانات روشن نظر آرہے ہیں۔
غلام نبی آزاد نے فرنٹ فٹ پر آکر جموں کشمیر کے انتخابی میدان میں کھیلنے کا پوری طرح سے ذہن بنا لیا ہے۔ایک نئی سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور آزادکانگریسی آزاد کے مقابلے میں سیاسی میدان میں بہت زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے مقامی سیاسی جماعتوں کے لئے۔ آزاد کے سیاسی میدان میں آنے سے نہ صرف نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس کو نقصان ہوسکتا ہے بلکہ سید الطاف بخاری کی نئی جماعت اپنی پارٹی کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ اپنی پارٹی میں بہت سارے ایسے سابق کابینہ وزیر، ممبران اسمبلی ، سیاسی کارکن شامل ہوئے ہیں جو کسی نہ کسی موڈ پرنیشنل کانفرنس،پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس کا حصہ رہے ہیں۔ خود سید الطاف بخاری بھی سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعیدکے بہت قریبی رہے ہیں اور نہ صرف پی ڈی پی میں کئی تنظیمی عہدوں پر کام کیا ہے بلکہ کابینہ کے ایک طاقتور وزیر بھی رہے ہیں۔ غلام نبی آزاد کے میدان میں آنے سے اس وقت اگرچہ کانگریس کے کئی لیڈر وں نے کانگریس چھوڑ کر آزاد کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے (جو ابھی کچھ اور دنوں تک جاری رہ سکتا ہے) مگر مستقبل قریب میں دیگر جماعتوں سے بھی لوگ آزاد کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں، جس کی شروعات سنگرامہ اسمبلی حلقے کے سابق ممبر اسمبلی اور اپنی پارٹی کے لیڈر شعیب نبی لون سے ہوئی ہے۔اگرچہ علاقائی نیشنل کانفرنس اب تک اپنی پارٹی کے درجہ اور فائل کو ایک ساتھ رکھنے میں کامیاب رہی ہے، لیکن مقامی سیاست میں آزاد کا ابھرنا این سی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے خوش آئند پیش رفت نہیں ہو گی۔این سی کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ذاتی طور پر آزاد کے ساتھ ہمیشہ خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔ محبوبہ مفتی کے والد نے 2002 سے 2005 تک ریا ست کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حکومت کی جس میں PDP-کانگریس اتحاد کی سربراہی کی گئی جو 2008 میں اس وقت ٹوٹ گیا جب آزاد بطور وزیر اعلیٰ اتحاد کی سربراہی کر رہے تھے۔ایک مرکزی وزیر اور کانگریس کے سینئر لیڈر کے طور پر، آزاد نے ہمیشہ جموں، وادی اور لداخ خطے کی علاقائی امنگوں کی حمایت کی ہے۔ یہ ایک وجہ ہے کہ وادی میں این سی کی مضبوط پوزیشن کے باوجود، سابقہ جموں و کشمیر کے تینوں خطوں کے لوگوں نے ہمیشہ آزاد کا احترام کیا ہے۔وادی کے لوگوں میں ان کا کتنا احترام ہے درحقیقت اسمبلی انتخابات میں ان کی پارٹی کو ملنے والے ووٹوں سے ظاہر ہوگا، اس کے باوجود وہ ان لوگوں کو ایک سیکولر متبادل فراہم کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے جو این سی اور پی ڈی پی سے آگے دیکھنا چاہتے ہیں۔
اگرچہ تجربہ کار رہنما غلام نبی آزاد کو پورے جموں و کشمیر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے لیکن وادی چناب میں ان کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ ڈوڈہ، کشتواڑ اور رامبن اضلاع میں ان کا زبردست اثر و رسوخ ہے۔ وہ پہاڑی علاقوں میں بھی گھس چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وادی چناب میں کانگریس کا ایک طویل عرصہ تک مضبوط قلعہ تھا۔ وادی کے کچھ حصوں میں بھی ان کے حامیوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ پوری ریاست کی 20 سے 25 سیٹوں پر ان کا اثر ہے۔ایسے میں وادی چناب اور وادی کشمیر کی سیاست کروٹ لے سکتی ہے۔ پارٹی کو آزاد کی کانگریس سے علیحدگی کا بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ خاص طور پر وادی چناب اور وادی کشمیر میں۔ بلاک کانگریس سے لے کر یوتھ کانگریس اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی تک، انہوں نے لوگوں کو فعال سیاست میں جوڑا۔ تمام مذاہب اور تمام طبقات میں ان کی گرفت تھی۔
چاہے این سی اور پی ڈی پی اسے قبول کریں یا نہ کریں، حقیقت یہ ہے کہ آزاد کی جموں و کشمیر کی سیاست میں انٹری ایک ہنس کی طرح ہو سکتی ہے، لیکن وہ اپنے حریفوں کے جسم میں کانٹا بن سکتے ہیں۔ان کے داخلے سے جموں ڈویژن کے مسلم اکثریتی اسمبلی حلقوں میں این سی اور پی ڈی پی کے حسابات خراب ہو جائیں گے۔یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اسمبلی انتخابات میں کتنی سیٹیں جیتتے ہیں، لیکن یہ قیاس کہ وہ سیٹیں این سی یا پی ڈی پی کو جائیں گی، اب پہلے سے طے شدہ نتیجہ نہیں ہے۔جموں ڈویژن کے ہندو اکثریتی حلقوں میں بہت سی سیٹیں، جن پر کانگریس کا انحصار تھا، آزاد کے کانگریس سے علیحدگی کے بعد ان سیٹوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔آزاد کی نئی پارٹی 90 میں سے کتنی سیٹیں جیتے گی اس پر بحث کی جاسکتی ہے، لیکن یہ کہ وہ 15 سے 18 سیٹوں پر ہونے والے انتخابات کے نتائج کو کافی حد تک متاثر کر سکتی ہے جس سے کوئی بھی اختلاف نہیں کر سکتا۔
آزاد کے آنے سے بی جے پی کو کیا فائدہ ہو گا؟
جموں صوبہ کی ان سیٹوں پر جہاں پر مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی اکژیت رہتی ہے وہاں پر آزاد کے آنے سے صورتحال اب بالکل بدل گئی ہے۔خیال کیا جاتا تھا کہ گپکار الائنس ان سیٹوں پر مشترکہ امیدوار کھڑا کرکے بی جے پی کے مارچ پر بریک لگا سکتا ہے۔ گپکار الائنس بھی آہستہ آہستہ بکھر رہا ہے۔این سی کے نائب صدر عمر عبداللہ نے پارٹی کی ایک خاص میٹنگ میں اس بات کا واشگاف اعلان کیا کہ این سی سبھی 90اسمبلی سیٹوں پر انتخاب لڑے گی جب بھی وہ منعْقد کرائے جائیں گے۔کچھ تجزیہ نگار این سی کے اس اعلان اور غلام نبی آزاد کے کانگریس سے علیحدگی کے اعلان کو محض اتفاق قرار نہیں دیتے ہیں۔ آزاد کے آنے سے مسلم ووٹ بینک میں سیندھ لگنے کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو مل سکتا ہے کیونکہ جتنے زیادہ مسلم ووٹ تقسیم ہوں گے بی جے پی کی پوزیشن اتنی ہی مضبوط ہوگی۔ اتنا ہی نہیں ہندو اکثریتی ووٹروں والی سیٹوں پر بی جی پی کی جیت کا مارجن بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ گپکار الائنس کے ٹوٹنے، آزاد کی ایک نئی پارٹی جموں کشمیر کے انتخابی میدان میں آنے سے ایک بات واضح لگتی ہے کہ نئی اسمبلی میں کسی بھی ایک پارٹی کو واضح اکژیت حاصل ہونے کے بہت کم امکانات ہیں، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو سب سے زیادہ سیٹیں حاصل ہو سکتی ہیں۔ وادی کشمیر میں گپکار الائنس میں شامل پارٹیوں کے بغیر جو پارٹیاں رہتی ہیں( اپنی پارٹی ،پی سی، وغیرہ) وہ10 سے 12 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہیں باقی 35 سے37 سیٹوں پر بیشتر میں سے این سی واپس آسکتی ہے۔ اس پس منظر میں آزاد کی پارٹی کے ساتھ ساتھ فاروق عبداللہ کی این سی بھی کسی بھی پارٹی کی طرف سے نئی حکومت بنانے کے لئے اہم ثابت ہو سکتی ہے۔۔ ایسے میں بہت حد تک ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں فاروق عبداللہ اور آزاد کی نئی پارٹی کے درمیان ایک نیا اتحاد بنتا نظر آ سکتا ہے۔ بی جے پی بھی اس میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی اور غلام نبی آزاد کے درمیان یہ اتحاد ہو ۔ لیکن بی جے پی کے لیے اس انتخابی جنگ میں فاروق عبداللہ کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگا۔
کچھ سیاسی پارٹیوں ،جن میں اپنی پارٹی اور کانگریس شامل ہیں،نے آزاد کی ممکنہ پارٹی کو بی جے پی کی ’ اے‘ ٹیم کہنا شروع کر دیا ہے۔ پارٹی چھوڑ کر جانے والے لیڈروں اور کارکنوں سے پریشان سینئر کانگریس لیڈر غلام احمد میر سابق جے اینڈ کے چیف منسٹر پر سخت تنقید کرتے ہوئے آئے۔ آزادکی حمایت میں کانگریس چھوڑنے والے رہنماؤں کو ”بی جے پی کی اے ٹیم” قرار دیتے ہوئے میر نے کہا کہ آزاد پنجاب کے سابق وزیر اعلی امریندر سنگھ کی قسمت سے ملیں گے۔”اب تک ہم (جموں و کشمیر میں کچھ پارٹیوں کے بارے میں) بی ٹیم، سی ٹیم (بی جے پی کی) کہتے تھے۔ لیکن اب، وہ (آزاد کی قیادت میں گروپ) اے ٹیم کے طور پر آگے آ رہے ہیں۔ پردہ اٹھایا جا رہا ہے، اور جموں و کشمیر کے لوگ فیصلہ کریں گے کہ ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے،‘‘ میر نے کہا۔
آزاد نے بھی کانگریس کی سخت تنقید کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کانگریس کی قیادت پر معاملات ٹھیک نہ کرنے کا الزام لگایا۔”میں کانگریس کو اپنی نیک خواہشات دیتا ہوں، لیکن پارٹی کو خواہشات سے زیادہ دوائیوں کی ضرورت ہے۔ اور، یہ ادویات کانگریس کو ڈاکٹروں کے بجائے کمپاؤنڈرز فراہم کر رہے ہیں،” آزاد نے کہا، ۔ اپنے حملے کو جاری رکھتے ہوئے، آزاد نے کہا کہ پارٹی کی بنیاد ”کمزور” ہو چکی ہے اور یہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لیڈر کانگریس چھوڑ چکے ہیں۔
تو کیا بی جے پی اسمبلی میں واضح اکژیت حاصل نہ ہونے کی صورت میں آزاد کو وزیر اعلیٰ بنا سکتی ہے؟۔ سیاسی تجزیہ نگار اس صورتحال کو تسلیم کرنے سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ بی جے پی جموں کے لوگوں کو صرف اس بنیاد پر اپنے ساتھ جوڑنے میں کامیاب رہتی ہے کہ ’اگلا چیف منسٹر جموں کا ہوگا‘ ۔ آزاد بھی تو جموں خطے سے تعلق رکھتے ہیں مگر بی جے پی اپنے بیانیہ میں ان جیسے لوگوں کے بارے میں ذکر نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کا بیانیہ کسی اور طرف اشارہ کرتا ہے۔